حجاب یا کتاب؟؟

محمد انصار اللہ قاسمی
آرگنائزرمجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
آج کل حجاب کے مسئلہ پرٹی وی چینلوں اورسوشیل میڈیا پربحث ومباحثہ اور صحافت کی معروف زبان میں ’’ڈبیٹ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے،اس بحث کے دوران گودی میڈیا چینل کی ایک مشہور ’’چیخ مار‘‘ اینکر شرکاء بحث سے سوال کرتی ہے کہ حجاب یا کتاب؟ مسلم طالبات کو دونوں میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہئے؟ اس سوال کے دوجواب ہیں، ایک جواب جمہوری ملک میںپابندِ قانون شہری ہونے کی حیثیت سے اوردوسرا جواب ایمانی حمیت وحرارت سے سرشار مسلمان ہونے کی حیثیت سے ۔
پابند قانون ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ سوال ہی غلط ہے اس لئے کہ آپشن/ انتخاب اور اختیار کرنے کا سوال دومتضاد اور مخالف چیزوں میں یا اہم غیر اہم چیزوں میں ہوتا ہے، دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہو ںیا دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہو تو وہاں اس طرح کا سوال خود اپنی عقل ودانش پرسوال کھڑا کرنا ہے، مثلاً یہ سوال تو ہوسکتا ہے کہ آپ چائے پینا چاہیں گے یا دودھ ؟ لیکن اگرکسی چائے پینے والے سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ کے لئے چائے اہم ہے یا چائے کی پتی؟ تو یہ ایک احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہوگا،کیوں کہ پتی کے بغیر چائے کا تصور ہی نہیں، اسی طرح فون استعمال کرنے والے سے کمپنی کے حوالہ سے انتخاب کا سوال کیا جاسکتا ہے لیکن یہ پوچھنا سراسرحماقت ونادانی ہوگی آپ کے لئے موبائیل فون اہم ہے یا اس کی بیاٹری؟؟کوٹ پتلون پہننے والے سے یہ سوال تو ٹھیک ہے کہ آپ کے لئے کوٹ پتلون اہم ہے یا اس کے ساتھ لگائی گئی ٹائی؟ تویہ شخص ٹائی کوچھوڑسکتا ہے، لیکن اگر اس سے پوچھا جائے کہ آپ کے لئے کوٹ اہم ہے یاپتلون ؟ تواب کیا یہ شخص بغیر کوٹ یا بغیر پتلون کے گھومے پھرے گا، یا خود اینکر سے پوچھ لیا جائے کہ کل کو اگر آپ کا انتظامیہ یہ شرط لگادے کہ آپ کو اسٹوڈیو میں بے لباس رہنا ہوگا ملازمت یا بے لباس ہونے کوسامنے رکھ کر آپ سےسوال کیا جائے توآپ کس کا انتخاب کریں گی؟ ایسی ہی سیچویشن کوسامنے رکھ کر آپ حجاب یا کتاب کا سوال اٹھا سکتی ہیں۔
بہرحال مذہب کی پابند مسلم طالبات کے لئے حجاب اور تعلیم دونوں اہم ہیں، خود خالص سیکولر نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہرایک کی اپنی ذاتی پسند ناپسند کا سوال ہے جب کوئی خاتون اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پرایک خاتون ہو کر مردانہ لباس پہننے کواپنا حق سمجھتی ہیں تو پھر یہی حق ایک مسلم طالبہ اورخاتون کو اس کی اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پرکیوں نہیں دیا جاسکتا اوراس کو برقع وحجاب پہننے سے کیوں کر روکا جاسکتا ہے؟دوسرے یہ کہ بادی النظر میں اس سوال کی شرانگیزی وبدنیتی کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ، کیا یہی سوال سکھ بھائی سے اس کی پگڑی کو لے کر کیا جاسکتا ہے ؟؟ کیا اسی مذہبی شناخت اور تعلیم کوسامنے رکھ کر کسی ہندو خاتون کے گلے سے ’’منگل سوتر‘‘ نکالنے کوکہا جائے گا؟ جب اس طرح کے سوالات دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے نہیں کئے جاسکتے تو پھر صرف مسلمانوں ہی سے کیوں ؟؟
جہاں تک ایمانی حمیت وحرارت سے سرشار مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس سوال کا جواب ہے تو وہ بالکل واضح اور دوٹوک ہے، بے شک تعلیم ہمارے لئے بہت اہم ہے اورہم اس کو اپنی ترقی کے لئے نہایت ضروری سمجھتے ہیں، لیکن یاد رہے جب ہمارے لئے حالات ایسے ہوجائیں کہ ہمیں ’’کتاب یا حجاب‘‘ میںسے لازماً کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا توہم حجاب کوترجیح دیں گے کیوں کہ حجاب محض ایک کپڑا نہیں ہے، یہ ہمارے وقار اوراحترام کی علامت ہے،اس سے ہماری عفت وعصمت وابستہ ہے، یہ ہماری آبرو وناموس کا مسئلہ ہے، ہم تعلیم کے لئے اپنے وقار واحترام اور اپنی آبرو وناموس کا سودا نہیں کرسکتے۔
ہمارے لئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ ہم تعلیم یافتہ کہلانے کے لئے مذہب کے باغی اورغدار بن جائیں، جس مذہب کی وجہ سے ہمیں دنیا بھرکی قوموں کے درمیان ایک باوقار شناخت اور مہذب پہچان ملی، بلکہ صحیح کہا جائے توہم جہالت کو اس تعلیمی ترقی سے ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں جومذہبی عقائد اورتعلیمات کو پامال کرنے کے بعد حاصل کی گئی ہو، کیوں کہ ایسی تعلیم ذہنی وفکری غلامی کی بدترین شکل ہے، ایک شخص کہتا ہے کہ ہم آپ کو خوب پڑھائیں گے، آگے بڑھائیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ صرف یونیفارم کی حد تک نہیں بل کہ اپنے دل ودماغ کوبھی ہمارے تابع رکھنا ہوگا، ہماری سوچ کے مقابلہ میں آپ کو سوچنے اور سمجھنے کی آزادی نہیں ہوگی، جوشخص ایسی تعلیم حاصل کرے گا وہ ایک ’’ترقی یافتہ انسان‘‘ سے زیادہ ’’تعلیم یافتہ غلام‘‘ کہلانے کے لائق ہوگا۔
Comments are closed.