صہباء اختر مرحوم: اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا

تحریر: محمد صابر حسین ندوی
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
اگر انسان کے اندر احساس مر جائے، یا صحیح تعبیر میں کہیں تو وہ حالات و جذبات اور واقعات کا تاثر قبول نہ کرے یا کرے مگر دل و دماغ پر چسپاں نہ کرے، ہر غم کو دھوئیں میں اڑاتا چلا جائے، بد سلوکیوں، ناروا رویوں پر ہنستا ہوا، دشمنوں کی دشمنی اور سازشوں کے جال میں مسکراتا چلا جائے، ہر درد کو ایک ہوا مانے، ایک ایسی ہوا جس کے گزرنے سے کبھی کبھی کوئی احساس تک نہیں ہوتا؛ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ فضاؤں میں ہواؤں کا کوئی وجود نہیں، گرمی اور تپش سے انسان کا گلہ خشک ہورہا ہوتا ہے، مگر ٹھیک اسی دوران اس کی سانسیں رواں ہوتی ہیں جو یقیناً ہواؤں کا اثر ہے، ٹھیک ایسی ہی زندگی انسان کو میسر آجائے تو انسان دنیاوی جھمیلوں اور ان سے ملنے والی آہ و فغاں کو برداشت کر جاتا ہے، دقت اس وقت ہوتی ہے کہ جب انسان شعور و آگہی پالے، صحیح و غلط کی سمجھ حاصل کرلے، دنیا داری، مفاد پرستی اور خود غرضی کا مکروہ چہرہ دیکھ لے، پھر یہ کہ اس کے بھی مدارج ہیں، انسان جس قدر حساس، باشعور ہوتا ہے وہ اسی قدر درد کا مارا ہوتا ہے، انسانوں کے دوغلے پن، منافقت اور چہرے پر چہرے کو جتنا سمجھتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا دل کڑھن سے بھرتا جاتا ہے، مذکورہ شعر میں شاعر نے انسانی زندگی کی اسی حقیقت کی طرف رہنمائی کی ہے؛ غالباً ان کی زندگی بھی تجربات سے پر تھی، شاعر جناب صہبا اختر ہیں جو اسی کشمکش سے دوچار تھے، انہوں نے اپنی کیفیت اس شعر میں بھی بتائی ہے، وہ کہتے ہیں:
ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
زندگی کے انہیں کسی پڑاؤ پر وہ شاعر بنے ہیں، جہاں تجربات اور دل کی دنیا نے انہیں آمادہ کیا ہے، یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ شاعری کا جوہر انسان کی طبیعت ثانیہ اسی وقت بنتی ہے جب اس میں حالات کی آمیزش ہو، زندگی کی تگ و دو، محبت و شعور اور ٹھوکروں کی گزر گاہ گزرا گیا ہو، اگر کوئی چہار دیواری میں بیٹھ کر شاعری کرے تو شاید اس کا قلم خشک ہوجائے گا، سیاہی ختم ہوجائے گی؛ لیکن خیالات و فکر کی ندرت نہ ملے گی، یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں؛ مگر عمومی شعراء کے احوال یہی بتاتے ہیں، جناب صہبا اختر مرحوم بھی اسی دنیا کے باسی تھے، انہیں بھی کسی کے خیال و آرزو نے شاعر بنا دیا تھا، وہ فطرت کی آواز کو لفظوں کا جامہ پہنانے لگے تھے، وہ جود کہتے ہیں:
میرے سخن کی داد بھی اس کو ہی دیجیے
وہ جس کی آرزو مجھے شاعر بنا گئی
اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا، آپ ٣٠/ ستمبر ١٩٣١ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان جانا پڑا۔ پاکستان جانے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی، پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ١٩/ فروری ١٩٩٦ء کو صہبا اختر کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو جو ان کی زندگی کا عکس ہے:
یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی
چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے
صہبا مرحوم کی شاعری میں درد زندگی کا بڑا حصہ پایا جاتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کو نہیں بلکہ اپنے درد، تجربات زندگی اور معاشرے سے نالاں داستان کو پرو رہے ہیں، وہ ایک زندہ و تابندہ شاعر ہیں، ان کی شاعری میں ہر عام و خاص اپنا حال دیکھ سکتا ہے، غالباً ایک شاعر کی اس سے زیادہ اور کیا کامیابی ہوگی کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے جذبات میں شامل کرلے، جب بھی کوئی انہیں پڑھے تو اپنا دل ان کے دل میں محسوس کرے، اپنے نہاخانے میں ان کی تعبیرات پائے، صہبا صاحب کی شاعری میں ایک نمایاں چیز یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ تمثیلات بہت اچھی استعمال کرتے ہیں، جنہیں پڑھ کر انسان سر دھنتا رہ جاتا ہے، یہ بلاغت اور پھر حال دل دونوں کا مجموعہ جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے، ایک شعر پڑھیے!
مری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں
انسان عموماً چلتے وقت ایک سایہ ساتھ لئے چلتا ہے، اگر کبھی اسے دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ آپ کے عضو کا ایک حصہ ہے، مگر آپ اسے نہ چھو سکتے ہیں اور ناہی اسے استقلال بخش سکتے ہیں، ایک شعر اور پڑھنے کے لائق ہے جس میں بہترین تمثیلی مظاہرہ کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے دنیا کو زن فاحشہ سے تعبیر کیا ہے، ایک ایسی خاتون جو چند سکوں یا پیٹ کی تپش بجھانے کیلئے کمتر اور حقیر ترین سطح پر چلی جاتی ہے، تو دنیا بھی اس سے کیا الگ ہے؟ اس دنیا میں جو جس قدر گرتا جاتا ہے وہ اتنا ہی بلند اور فائق مانا جاتا ہے، شاعر کہتے ہیں تو ہم بھی اس دنیا کو بے نکاح ہی رکھتے ہیں، یہ ایک مثال ہے کہ جس طرح نکاح کے ساتھ زندگی پاک و صاف مانی جاتی ہے، اسی طرح بے نکاح تعلق ناجائز و نامناسب مانا جاتا ہے، دنیا کی یہ اوقات نہیں کہ اس سے نکاح کیا جائے بلکہ اسے بھی بے نکاح ہی استعمال کیا جائے:
ہمیں خبر ہے زن فاحشہ ہے یہ دنیا
سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں
اس سلسلہ کا ایک شعر اور پڑھنے کے قابل ہے، جس میں وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے کس طرح دل کو سمجھا رہے ہیں، ایک بے دل کی یاد کو سنجو رہے ہیں، ہر احتمال کو خارج کر رہے ہیں کہ بَس دل کا بھرم باقی رہ جائے، یہ ایک بہترین شعر ہے، کہتے ہیں:
شاید وہ سنگ دل ہو کبھی مائل کرم
صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو
اخیر میں مرحوم کے کلام سے منتخب چند اشعار پیش کئے جارہے ہیں، جو ان کی فکر کو مزید واضح کرتے ہیں، اہل زوق کیلئے لطف کا ساماں بھی ہے.
بیان لغزش آدم نہ کر کہ وہ فتنہ
مری زمیں سے نہیں تیرے آسماں سے اٹھا
…..
دل کے اجڑے نگر کو کر آباد
اس ڈگر کو بھی کوئی راہی دے
…….
میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا
…..
صہباؔ صاحب دریا ہو تو دریا جیسی بات کرو
تیز ہوا سے لہر تو اک جوہڑ میں بھی آ جاتی ہے
…….
تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے کچھ اور ہمیں بد نام کیا
7987972043
Comments are closed.