ایک حدیث کے لئے ایک سال

تحریر: محمد حنیف ٹنکاروی
فکر ونظر کا وہ کونسا میدان ہے جس میں مسلمانوں کے تاریخی نقوش ثبت نہ ہوں، آج جو قومیں ترقی کی جن شاہراہوں پر گامزن ہیں، چاہے اس کا تعلق سائنس اور فلسفہ سے ہو یا جغرافیایہ سے ہو یا عمرانیات و نفسانیات سے، ان سب کے بنیادی مراحل کی تعمیر میں اسلامی تاریخ کی علمی محنتوں کا خون شامل ہے۔
پس کروڑوں رحمتیں نازل ہوں ان بزرگوں پر جن سے ہماری تاریخ کی عظمتیں وابستہ ہیں اور ٹھنڈی ہو مرقدیں ان کی، جن کے نشاناتِ قلم آج بھی بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔
علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت غالب قطان رحمۃاللہ علیہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے تھوڑا سا اندازہ کیا سکتا ہے کہ علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے متقدمین نے کیسی کیسی صعوبتیں اٹھائیں ہیں، اور ایک ایک حدیث کتنی قدر و منزلت کے ساتھ حاصل کی ہے۔
حضرت غالب روئی کے تاجر تھے، تجارت کے سلسلہ میں ایک مرتبہ کوفہ گئے، سفر خالص تجارتی تھا لیکن جب کوفہ پہنچے تو سوچا کہ یہاں کے علماء حدیث سے استفادہ بھی کرنا چاہیے، اس زمانے میں وہاں مشہور محدث حضرت سلیمان اعمش رحمۃاللہ علیہ درس حدیث دیا کرتے تھے، ان کے حلقہ میں جانے لگے، اور بہت سی حدیثیں حاصل کیں ۔بالآخر جب تجارت کا کام ختم ہوگیا اور انہوں نے واپس بصرہ جانے کا ارادہ کیا تو آخری رات حضرت اعمش ہی کی خدمت میں گزاری، آخر شب میں حضرت اعمش تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو اس میں یہ آیت تلاوت کی۔
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلّا هُوَ والْمَلائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قائِمًا بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (١٨) إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
ساتھ ساتھ حضرت اعمش نے کچھ اور کلمات بھی کہے جس سے حضرت غالب قطان یہ سمجھے کہ ان کو اس آیت سے متعلق کوئی حدیث معلوم ہے چنانچہ صبح کے وقت جب وہ امام اعمش سے رخصت ہونے لگے تو ان سے درخواست کی کہ "رات میں نے دیکھا کہ آپ فلاں آیت باربار پڑھ رہے تھے، تو کیا اس آیت کے بارے میں آپ کو کوئی حدیث پہنچی ہے؟ تو امام صاحب نے اثبات میں جواب دیا، غالب کہنے لگے، میں سال بھر سے آپ کے پاس ہوں، آپ نے مجھے یہ حدیث نہیں سنائی؟ ”
اس کے جواب میں امام اعمش کے منھ سے نکل گیا : والله لا احدثنك به سنة خدا کی قسم! میں مزید ایک سال تک یہ حدیث نہیں سناؤں گا۔غالب قطان نے یہ سن کر شوق و ذوق میں فورا اپنا سفر منسوخ کرکے مزید سال بھر امام اعمش کے پاس رہنے کا فیصلہ کر لیا، خود فرماتے ہیں : میں وہیں ٹھہر گیا، اور امام اعمش کے دروازے پر اس دن کی تاریخ درج کر دی، جب پورا سال گزر گیا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ اب سال گزر گیا اس پر امام اعمش نے حدیث سنائی، حدیث یہ تھی۔
حدَّثَني أبو وائلٍ عن عبدِ اللهِ بنِ مَسعودٍ قال: قال رسولُ اللهِ ﷺ: يُؤتى بصاحبھا يَومَ القِيامةِ فيقولُ عبدی عھد الیّ وأنا أحَقُّ مَن وَفى بالعھد، أدخِلو عبدی الجنَّةَ (شعب الایمان للبیھقی الجزء الثانی ص ٤٦٥ واللفظ لہ، أبو نعيم ت ٤٣٠، حلية الأولياء ٦/٢٠٢
الطبرانی)
مجھے ابو وائل نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرکے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات ” شھد اللہ الخ” پڑھا کرتا ہو اسے قیامت کے دن بارگاہ الہی میں لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے نے مجھ سے عہد کیا تھا اور میں ایفاء عہد کا سب سے زیادہ حقدار ہوں میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو۔(معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر)
راہ علم میں محنت کا وہ جذبہ جو پہلے تھا، اب نہیں ہے، حصول علم کی وہ تڑپ جو ٹھٹھری ہوئی سردی اور کڑکڑاتی دھوپ و گرمی میں ریگستانوں اور تپتے ہوئے صحراؤں کے میل ہا میل کا سفر طالب علم سے کراتی، اب ایسی داستانیں اسلامی تاریخ کے صرف اوراق ہی کی زینت ہیں۔
Comments are closed.