ہرشا کی موت ایک مسٹری, اعلی سطح پر جانچ ضروری !

 

 

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )

 

ریاست کرناٹک کے شیموگہ سے تعلق رکھنے والا بنام بجرنگ دل کارکن ہرشا کی موت کے ساتھ ہی سیاست تیز ہوگئی, یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہرشا پر سیاست موت کے بعد شروع ہوئی ہے یا موت سے قبل ہوچکی تھی ؟

کیا واقعی میں ہرشا کے نام کا کارڈ نکل چکا تھا ؟ کیا ہرشا کی موت سوچی سمجھی سیاسی سازش تھی ؟ کیونکہ ہرشا کی موت کو حجاب اور اترپردیش انتخابات سے بھی جوڑا جارہا ہے، ویسے بھی اگلے سال کرناٹک میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی کے پاس کوئی مدعہ بچا نہیں ایسے میں ہرشا کی موت سے اور کس کو فائدہ ہوسکتا ہے بیشک بی جے پی ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا اور ملک میں 80 کڑوڑ آبادی ہونے کے باوجود ایک بار پھر ہندو خطرے میں ہونے کا خوف دلایا جائے گا ۔۔۔۔

خیر ہرشا کی موت سے جُڑے تمام واقعات کسی اور ہی جانب اشارہ کررہے ہیں ……

23 سالہ ہرشا جس پہ چار کریمنل کیس درج ہیں, جس کی شہرت کا اندازہ خود اُس کے اہل خانہ کو کل تک نہیں تھا وہ اچانک راتوں رات اس قدر مشہور بنادیا گیا کہ اُس کی موت نے سارے شہر میں آگ لگادی ……

ہرشا کی موت واقعی میں مسٹری ہے جو بلاتاخیر ایک ہی دن میں بغیر کسی جدوجہد کے اس کے قاتلوں نے بھی خودسپردگی کرلی……

اور اس پوری مسٹری کو سمجھنے کے لئے ہمیں کڑی سے کڑی جوڑنی ہوگی……

22 فروری اتوار کی رات 8:30 بجے ایگ رائس کھانے کے لئے گھر سے نکلے ہرشا کی ملاقات اپنے دوستوں سے ہوتی ہے , کچھ دیر گفتگو کے بعد اچانک قریب سے کسی ہنگامہ کی اطلاع ہرشا اور اُس کے ساتھیوں کو ملتی ہے , ہرشا کے ساتھی پتہ لگانے کے لئے وہاں سے چلے جاتے ہیں, لیکن ہرشا ان کے ساتھ نہیں جاتا جبکہ ہرشا ایک ذمہ دار اور ایکٹئو کارکن کہلایا جاتا ہے تو آخر وہ دوستوں کے ساتھ نہ جاتے ہوئے ایگ رائس کھانے کے لئے وہاں پر اکیلا کیوں رُک گیا ؟؟ کیا واقعی مین ہرشا کو اتنی بھوک لگی تھی یا ہرشا کے ساتھ کچھ اور ہونے والا تھا ؟؟؟

خیر جیسے ہی ہرشا کے ساتھی وہاں سے جاتے ہیں ہرشا کو اکیلا دیکھ کر کار میں سوار نامعلوم افراد ہرشا پہ حملہ کردیتے ہیں, ہرشا کے جسم پہ دھار دھار چھوری اور ہتھیار سے حملہ کیا جاتا ہے, یہاں پر یہ سوال اٹھانا واجب ہے کہ ہرشا پہ ہوئے حملے کی خبر کیا اُس کے ساتھیوں تک نہیں پہنچی ؟ جو کچھ دیر پہلے اُس کے ساتھ موجود تھے, یا اس وقت ہرشا کے وہان آنے کی خبر اُس کے قاتلوں کو پہلے ہی مل چکی تھی ؟ کیا ہرشا کی چیخیں اُس کے ساتھیوں تک یا کسی اور راہگیروں تک نہیں پہنچ پائیں ؟

جبکہ 9:30 بجے کے وقت شہر میں اتنا سناٹا بھی نہیں ہوتا, آخر کیوں ہرشا کو کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی ؟

یہاں پر یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ہرشا زمین پہ پڑا کسی سے بیٹ مانگ رہا تھا, کیا ہرشا نے بیٹ کسی اجنبی سے مانگی تھی یا وہاں اُس کا کوئی ساتھی یا جان پہچان والا موجود تھا ؟

اور ہرشا کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اُس میں زخمی ہرشا سانسین لے رہا ہے, اس کا بازو بھی ہل رہا ہے لیکن وہاں موجود نوجوان اُسے فورا اسپتال پہنچانے کے بجائے ویڈیو بنانے میں مصروف ہیں, اس بیچ ویڈیو میں کسی کی آواز سنائی دے رہی ہے جو ہرشا کو پہچانتا ہے اور کوئی ایمبولینس کا ذکر کررہا ہے, لیکن اُس سیچویشن میں ایمبولینس کا انتظار کرنا بہتر تھا یا کسی اور سواری میں ہرشا کو اسپتال پہنچانا ضروری تھا ؟؟؟ یا وہ کسی کے حکم کے منتظر تھے ؟؟؟؟ ایسے کئی سوال ہیں جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہین ۔

بہرحال جو بھی ہوا ہے عقل اُس کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے کیونکہ جہاں ہرشا کی مدد کے لئے کوئ نہیں تھا, وہیں آنا فانا میں ڈھائی, تین سو کا خونی بھیڑ , ایک گروہ جمع ہوجاتا ہے اور ہتھیاروں سے لیس نقاب پوش مسلم علاقوں میں گھُس کر توڑ پھوڑ, پتھربازی اور آگ زنی شروع کردیتے ہیں, کیا اس گروہ کو پہلے ہی تیار رکھا ہوا تھا ؟؟؟؟

اور جب موقعہ پر پولس پہنچتی بھی ہے تو سب کچھ تباہ ہونے کے بعد, جبکہ پولس اسٹیشنس متاثرہ علاقوں سے زیادہ دور بھی نہیں ہیں۔ بلکہ آس پاس ہیں, باوجود ان کے پہنچنے تک سینکڑوں نقاب پوش فرار ہوجاتے ہیں……

آور اتنا سب کچھ ہونے بعد بھی شہر میں فورا کرفیو نہیں لگایا جاتا , جبکہ شیموگہ ایک سینسٹئیو علاقہ ہے اور یہاں چنگاری کو آگ بنتے دیر نہیں لگتی, پھر بھی حالات کی نزاکت سنجیدگی کو جانتے بوجھتے ہرشا کی دیتھ باڈی کے ساتھ جلوس کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی بی جے پی, آر ایس ایس کے چھوٹے بڑے نیتا جمع ہوجاتے ہیں اس بیچ ایم ایل اے کے ایس ایشورپہ کا اسٹیٹمنٹ آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرتا ہے….. اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بغیر کسی جانچ کے ہی ایشورپہ کو پتہ ہوتا ہے کہ قاتل مسلمان ہیں ……..

خیر آگے ہرشا کے اہل خانہ کے بیانات مزید چونکا دینے والے ہیں…..

ہرشا کی ماں کا پہلا اسٹیٹمنٹ ہرشا نے بہت پہلے ہی بجرنگ دل چھوڑ دیا تھا, ہرشا کے شریک بھائی کا ویڈیو بھی وائرل ہوتا ہے جس میں انہونے کہا ہے کہ دو سال قبل ہندو تنظیموں نے ہرشا کے قتل پہ دس لاکھ کی سپاری دی تھی, ایک دوسری ویڈیو میں ہرشا کی بہن روتے ہوئے کہتی ہیں ہندو, ہندووادی اور ہندوتوا کے نام پر آج میرا بھائی ایسا پڑا ہے …… ان تمام باتوں پر غور کرتے ہوئے اگر ایم ایل اے ایشورپہ کا بیان جس میں انہونے کل صبح کہا تھا کہ ہرشا کو مسلمانوں نے مارا ہے, پھر چنا بسپا کا بیان سامنے آتا ہے جس میں وہ پولس والوں کو نامرد کہتے ہوئے پولس والوں کی لاشیں گرانے کی بات کرتے ہوئے، پولس پہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ پولس کو ہم نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا باوجود پولس ناکام رہی ہے۔

یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے آخر ایشورپا اور چنا بسپا کو کیسے پتہ چلا کے یہ قتل مسلمانوں نے کیا ہے ؟؟؟؟ اور انہونے پولس کو کس بنیاد پر اشارہ دیا ہے ؟؟؟

اس پر مزے کی بات تو یہ ہے کہ کانگریس کے دگج نیتا ڈی کے شیوکمار اور ڈی کے پرساد، ہری پرساد کی جانب سے ہرشا کی موت کے لئے ایشورپہ کو ذمہ دار ٹہراریا جاتا ہے, جو کوئی معمولی بات نہیں ہے, یہاں پر ڈی کے پرساد نے تو صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہرشا کی موت کا ذمہ دار ایشورپہ ہے…..

ایسے میں ہرشا کی موت میں ڈال میں کالا نہیں ہے بلکہ پوری کی پوری دال کالی ہے ……

خیر معاملے کی جانچ ہونی ضروری ہے, ہرشا کی موت سے لے کر شہر میں تشدد کی آگ بھڑکانے اور عوام کے آگے پولس کو بدنام کرنے کے خلاف ان فسادی نیتاؤں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی ضروری ہے,

ورنہ آج کسی بہن کا بھائی , کسی ماں باپ کا بیٹا گیا ہے, کل اسی ہرشا کی جگہ کسی اور گھر کا چراغ راجیش, سریش یا منجو ہوگا…… اور سیاستدانوں کی اولادیں ان غریب بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنا مستقبل سنواریں گے ………

Comments are closed.