بجرنگ دل کارکن ہرشا کے قتل کے ہر پہلو پر گہری نظر ! خلاصہ اور پس منظر کے ساتھ ایک رپورٹ

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ہرشا کے قتل سے پہلے کیا ہوا !
شیموگہ : 20 فروری اتوار کی شام 8:30 بجے سگیھٹی میں مقیم بجرنگ دل کارکن ہرشا اپنے گھر سے "ایگ رائس ” کھانے کے لئے پیدل چلتے ہوئے بھارتی کالونی کے "اماں کینٹین” پہنچتا ہے، وہاں اُس کی ملاقات نوین، منجو، آنند نامی تین دوستوں سے ہوتی ہے ۔۔۔
ہرشا کے دوستوں کا کہنا ہے
اس دوران ہرشا کے واٹس اپ پہ کسی نامعلوم لڑکیوں کی ویڈیو کالس آتی ہیں جو ہرشا سے مدد مانگ رہی ہوتی ہیں لیکن لڑکیان پریشان یا ڈری ہوئی نظر نہیں آتی، ہرشا ویڈیو دکھاکر دوستوں سے لڑکیوں کو پہچاننے کے لئے کہتا ہے دوست پہنچان نہیں پاتے ، ہرشا لڑکیوں کی کال بار بار کٹ کرتا ہے ، پھر ہرشا کے ساتھی ہرشا کے کہنے پر بائک لانے کے لئے وہاں سے نکلتے ہیں ، ہرشا وہاں پر اکیلا رکتا ہے۔
ہرشا کا قتل کیسے ہوا !
ہرشا کو اکیلا پاکر کار میں سوار نامعلوم افراد تیزدھار ہتھیاروں سے ہرشا پر حملہ کرتے ہیں، زخمی ہرشا لہولہان ہوکر زمین پر پڑتا ہے لیکن ابھی اُس کی سانسین چل رہی ہیں، وہ اپنے بازو ہلاتا ہے، ہرشا کو ایمبولینس کے ذریعہ سرکاری اسپتال لے جایا جاتا ہے ، اسپتال پہنچنے تک ہرشا مرچکا تھا، ۔۔۔۔۔
موت کے بعد کا منظر !
ہرشا کی موت کی خبر ملتے ہی اُس کے ساتھی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں توڑ پھوڑ شروع کردیتے ہیں اور رات کے 11:30 بجے 300 کی تعداد میں نقاب پوش مسلم اکثریتی علاقوں میں گھُس کر مسلم گھروں پہ پتھراؤ کرتے ہیں،گھرون کے باہر کھڑی گاڑیوں کو نظرآتش کیا جاتا ہے ، کئی گھرون مین گھُس کر مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے اس دوران ایک مسجد اور مدرسہ پر بھی پتھر مارے جاتے ہیں مدرسہ کے اندر گھُس کر توڑ ہھوڑ اور آگ زنی کی خبریں سامنے آتی ہیں ، کئی مسلمان زخمی ہوتے ہیں،
متاثرہ لوگون کا الزام ہے کہ انہونے کئی بار پولس کو کال کیا لیکن پولس کے آنے تک سارے نقاب پوش دنگائی پیچھے کے راستے سے فرار ہوگئے، حملے کی مذمت کرنے پر پولس نے الٹا بےقسور مسلمانوں پر ہی لاٹھی چلائی ۔۔۔۔۔
صبح شہر میں تشدد کی آگ کس نے اور کیسے بھڑکائی !
21 فروری کی صبح کے ایس ایشورپہ ایک مجموعہ سے مخاطب ہوکر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دیتے ہیں ، مسلمانوں کو غنڈہ مسلمان کہہ کر بغیر تحقیق مسلمانوں کو ہرشا کی موت کا ذمہ دار بتاکر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے ، ایشورپہ کا بیان آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرتا ہے۔ ایشورپہ کے علاوہ چنا بسپا ، پرمود متلک جیسے کئی ہندو لیڈران کے بیانات بھیڑ مشتعل کرتی ہے جس کے بعد شہر میں تشدد کی آگ مزید بھڑک جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
مقتول کی شاؤیاترا !
تقریبا 11 سے 11:30 بجے مقتول ہرشا کی دیتھ باڈی پوسٹ مارٹم کے بعد اہل خانہ کو سونپ دی جاتی ہے ، جس کے بعد شہر میں لگے سیکشن 144 کی دھحیان اڑاتے ہوئے دیتھ باڈی کے ساتھ شاویاترا ( جلوس) نکالا جاتا ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد مین ہندو تنظیموں سے جُڑے کارکنان اکٹھے ہوتے ہیں ، خود ایم ایل اے کے ایس ایشورپہ ، ممبر آف پارلیمنٹ راگھویندرا کے ساتھ کئی لیڈران شریک ہوتے ہیں ، یہ یاترا سگھیٹی سے شروع ہوکر نالبندواڈی ، آزاد نگر ، اوٹی روڈ ، اردو بازار گاندھی بازار ، بی اہیچ روڈ سے ہوتے ہوئے شام 5 بجے ویدیا نگر کے سمشان پہنچتی ہے جہان رام منتروں کے ساتھ آخری رسومات پورے کرتے ہوئے مقتول کی چتا کو آگ لگائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
لیکن شاویاترا کے دوران سگھیٹی ، نالبندواڈی ، امام باڑہ ، آزاد نگر ، اوٹی روڈ ،اردو بازار، گاندھی بازار ، بی ہیچ روڈ اور ودیانگر ہر جگہ جلوس میں شریک دنگائیون کی جانب سے مسلم گھرون دکانون پہ پتھراؤ کیا جاتا ہے ، مسلم دکانوں کے شیٹر توڑ کر نقصان کیا جاتا ہے ، مسجدوں پر پتھر بازی ہوتی ہے، پولس کے آگے جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے ہاتھوں میں ڈنڈے، لان و دیگر یتھیار اٹھائے مسلم علاقون میں گھُسنے کی کوشش کی جاتی ہے، کئی دکانوں اور گاڑیون کو پولس کے سامنے ہی آگ لگادی گئی اور پولس تماشبین بنی کھڑی دیکھتی رہتی ہے اس دوران شہر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں کے طور پر سگہیٹی، نالبندواڈی اور آزاد نگر نامی مسلم اکثریت علاقون میں گھُس کر عورتوں کے ساتھ کھینچا تانی کی گئی ، کئی لوگون کو زخمی کیا گیا جس میں بچے بھی شامل تھے ، پولس کی موجودگی میں ہی بی بی اسٹریٹ میں دو رپوٹرس پہ حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کیا گیا ، اس کے علاوہ گراؤنڈ رپورٹنگ کررہے کئی صحافیوں سے موبائلس، کیمرہ چھیننے کی کوشش کی گئی اور پولس حالات پر قِابو پانے میں مکمل ناکام رہی، انتم سنسکار ہونے کے فورا بعد شہر مین تین دنوں کے لئے کرفیو لگادیا گیا ۔۔۔۔۔
فساد زدہ مسلم علاقوں کا حال!
شام کے 5:30 بجے نال بندواڈی سے خبر ملتی ہے کہ وہاں پر مسلمانوں کا 35 لاکھ کا نقصان ہوا ہے ۔۔۔۔
کنڑیگرا جناپراویدیکے کے ضلع صدر رحمت اللہ نے بتایا کہ نالبندواڈی کے 300 سے 350 مسلمان اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہر کے مختلف علاقوں میں دوستوں رشتے داروں کے گھر پناہ لے رہے ہیں،
رحمت اللہ نے بتایا شہر میں دنگا اور کرفیو ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں کافی دقت پیش آئی، اس لئے معمولی گاڑیوں کے بجائے آیمنیولنس کے ذریعہ متاثرہ علاقے کے مسلمانوں کو محفوظ جگہ منتقل کیا جارہا ہے اور وہاں موجود پولس بےبس بنی خالی گھروں کی حفاظت کی یقین دہانی دلائی ہے ۔۔۔۔۔
ہرشا کے قاتلوں کی گرفتاری!
24 گھنٹوں کے اندر پولس حرکت میں آجاتی ہے اور بڑی ہی پھرتی کے ساتھ ہرشا کے قتل میں 6 مسلم لڑکوں کو گرفتار جاتا ہے۔
شیموگہ کے ایس پی لکشمی پرساد نمائندوں سے بات کرتے ہوئے 6 گرفتار شدہ لڑکوں کے نام بتاتے ہیں ۔
محمد کاشف ، سید ندیم، آصف اللہ خان ، ریحان، نہال، عبدالافنان ہے جن میں ایک کی عمر 32 سال ہے اور باقی پانچ کی عمر21 سے 22 سال بتائی جارہی ہے ۔ ان 6 گرفتاریوں کے بعد 23 فروری کو مزید 3 گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں ،
فی الوقت کُل 8 مسلم لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے، مزید گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
قتل کے دو دن بعد شہر کے حالات !
22 فروری کی صبح شہر میں کرفیو کے باوجود ایک آٹو اور دو گاڑیوں کو آگ لگانے کی خبر سامنے آئی ہے ۔۔۔۔۔
23 فروری کی دوپہر 2:30 سے 3 کے بیج میں شہر کے آر ایم ایل نگر نامی مسلم اکثریتی علاقے میں ایک ہی گھر کے دو گاڑیوں ایک ٹی وی ایس کو آگ لگادی گئی ، حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے شہر میں پولس کی نفری بڑھادی گئی ہے،
دریں اثنا، شہر میں امن و امان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے، ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ یہ فی الحال حالات قابو میں ہیں۔ ہمارے پاس پولس بل کافی ہے۔ کرناٹک اسٹیٹ ریزرو پولیس (KSRP) اور ریپڈ ایکشن فورس (RAF) کی کل 20 پلاٹون موجود ہیں۔ ہم نے عوام میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کل ایک فلیگ مارچ بھی کیا گیا۔
فی الحال کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سارے شہر کو پولس چھاونی میں بدل دیا گیا ہے، شرپسندوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے ڈرون کیمراس کا استعمال کیا جارہا ہے اور احتیاط 26 فروری تک کے لئے کرفیو کو مزید بڑھاتے ہوئے اسکول کالجس کو چھٹی دے دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرشا کے قتل پر ریاست بھر میں سیاست جاری !
اس پورے واقعہ کے دوران ریاست کی سیاست میں بھی تیزی دیکھنے کو ملی، قتل کی اسکریپٹ بدلی گئی، بی جے پی نیتاؤں سے لے کر مقتول کے اہل خانہ کے بیانات تبدیل ہوتے رہے ، سیاسی جماعتین ایک دوسرے کو ہرشا کے قتل کے لئے موردالزام ٹہراتے رہے ، قتل کو کئی بار حجاب سے جوڑا گیا اور آخرکار پی ایف آئی ، ایس ڈی پی آئی جیسی مسلم تنظیموں کو بین کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اوورآل جو حالات بن رہے ہیں اس کے مدنظر ہرشا کے قتل کو ایک طرح سے پولٹکل مرڈر کہنا غلط نہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
جس کو سمجھنے کے لئے شروع سے آخر تک کے ہر پہلو پر غور کرنا ہوگا تاکہ سارا پولٹکل تماشہ سمجھ آسکے ان شاءاللہ اگلے قسط میں ہرشا سے جُڑی اس رپورٹ کا خلاصہ و پس منظر پیش کریں گے کہ
ہرشا کون ہے، اُس کے کریمنل ریکارڈس کیا ہیں ، اُس کے قتل سے کس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے فلاں فلاں ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.