Baseerat Online News Portal

"روس اور یوکرین جنگ” میں عالمی دنیا کا بے نقاب ہوتا دوغلاپن

 

نور اللہ نور

یوکرین اور روس ان دنوں برسر پیکار ہے روس اپنی ایٹمی اور مادی طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے اور پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کو ہضم کرنے کی سعی کررہا ہے اس کے مقابل میں یوکرین بھی بڑی پامردی کے ساتھ میدان میں ٹکا ہے۔
روس کی اس من مانی اور ہٹ دھرمی کی نتیجے میں ہزاروں لوگ پچھلے کئی روز سے جنگ کے مہیب سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہرطرف خوف و دہشت کا پہرہ ہے جس کی چہار جانب سے مذمت ہو رہی ہے اور مصیبت کی اس گھڑی میں میں بیشتر لوگ یوکرین کی حمایت میں ہے۔
شوشل میڈیا سے لیکر عالمی میڈیا تک یوکرین کی حمایت میں ہے ہر سمت اس انسانیت کشی پر طعن و تشنیع ہورہی ہے اور سارا عالم سراپا احتجاج بنا ہوا ہے لوگوں کا کہنا ہیکہ یہ انسانیت کے منافی عمل ہے ، معصوموں کا کوئی قصور نہیں ہے، اور کسی بھی ملک کو با اختیار ہوکر چلنا اس کا حق ہے اور یوکرین کے لوگ جو اپنے دفاع میں ہتھیار لیس کھڑے ہیں چہار جانب ان کی واہ واہی ہو رہی ہے اور اس کے صدر کی بھی ستائش ہورہی ہے۔ ضرور ہونی چاہیے کیونکہ حکمران تو وہی ہے جو فرنٹ فوٹ پر آکر قیادت کرے۔
یقیناً یہ مسند نشیں لوگوں کے اقتدار اور انا کی جنگ ہے اس میں ملک میں رہنے والے باشندوں کا کوئی دوش نہیں ہے انسانیت سوزی اور مردم کشی کا یہ کھیل یہیں رکنا چاہیے اور ہم بھی انسانیت کے رشتے سے اس بات کے مدعی ہیں کہ سیاسی جنگ میں معصوم بچوں کو یتیم ، خواتین کو بیوہ اور ماؤں کو بے سہارا ہونے سے بچایا جائے اور عالم انسانیت کو ایک جنگ عظیم میں جھونکنے سے دریغ کیا جائے۔
لیکن یاد ہونا چاہیے کہ اسی بر بریت کا مظاہرہ فلسطینی مسلمان کے ساتھ بھی کیا گیا تھا یہی درندگی ان کے ساتھ بھی روا رکھی گئی تھی ان کے سامنے بھی توپوں کے دہانے کھول دئیے گئے تھے اور ان کے بچے بھی اسی طرح یتیم ہو رہے تھے مگر کسی نے ایک لفظ نہیں کہا تھا بلکہ سارا عالم اسرائیل کی بربریت پر خاموش تماشائی تھا۔
ان مظلوم فلسطینیوں کا مطالبہ بھی ان یوکرین کے لوگوں سے کچھ مختلف نہیں تھا جس طرح یہ لوگ اپنی سرحد میں مداخلت سے چیں بہ جبیں ہیں اسی طرح ان فلسطینی مسلمان کا مطالبہ تھا کہ ان کی مقبوضہ مسجد اور شعائر کو انہیں واپس کردیا جائے مگر دونوں جگہ پر عالمی برادری کا رویہ مختلف (بلک منافقانہ) رہا یہاں تو ان کو ظلم دکھا مگر وہاں وہ ظالم کی شناخت کرنے سے بھی کتراتے رہے چہ جائیکہ اس پر گرفت کرسکے۔
کشمیریوں کا مطالبہ کیا تھا آخر وہ بھی تو اپنی زمین کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کی بھی جنگ اسی بات کو لیکر تھی کہ ان کے ساتھ بھی انسان کا سا سلوک کیا جائے ، انہیں بھی اس خطے میں سکون سے رہنے دیا جائے مگر ان کے علم بلند کرنے کو سارا عالم ایک دوسرے نظریے سے دیکھنے لگا ان کو دہشت گرد کہ کر مارا گیا اور خود کو امن کا علمبردار کہنے والا ادارہ” اقوام متحدہ” اسے آج تک اس کا حقیقی حق نہیں دلا سکا۔
آج پورا یوکرین اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار سے لیس کھڑا ہے اور کھلے عام اسلحہ سازی کا ویڈیو بھی دیکھنے میں آیا جس کی بڑے خوبصورت کیپشن کے ساتھ خوب پذیرائی ہوئی اور ان کے اس عمل کی ستائش بھی ہوئی، مگر یاد کیجئے! جب فلسطینی لوگوں نے ٹینکوں کے مقابل میں تیر آزمائی کی ، توپوں کا مقابل معمولی مشعلوں سے کیا تو ساری دنیا نے ان کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ، ساری دنیا کا چینل اسے توپوں سے زیادہ پاور فل باور کرانے لگا اور ان کو پوری دنیا نے دہشت گرد اور فسادی کہا۔ جب کہ دیکھا جائے تو جس چیز کے لئے یہ یوکرینی لڑ رہے ہیں وہی کام فلسطینی لوگوں نے کیا تھا مگر ایک کی پذیرائی ہوئی اور ایک کی رسوائی۔
یوکرینی صدر جب ہتھیار لے کر میدان میں آیا تو اسے بہادر کہا گیا مگر یہی کام جب طالبانی لوگ نے اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے کیا تو ساری دنیا نے اسے کٹرتا اور مذہبی جنون کا نام دیا ، یہی کام جب مسلم حکمرانوں نے کیا تو اسے کٹر کہا گیا اور اسے نفرتی عینک سے دیکھا گیا اور ایک غلط تصویر پیش کی گئی آخر یہ دوغلاپن اور منافقانہ رویہ کیوں؟
اس عالمی حادثے نے سارے سیکولر ، مصنوعی انصاف پسندلوگوں کے چہرے سے منافقت کا نقاب اتار دیا ہے اور ان انصاف کے ان علمبرداروں کا منافقانہ کردار اور دوغلاپن کھل کر آ گیا ہے اس لئے کہتے ہیں کبھی کبھی شر سے بھی خیر ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔

Comments are closed.