احسان جعفری کو یاد کرنا کیوں ضروری ہے؟ 

 

از

کرسٹوف جیفرولیٹ، انڈین ایکسپریس، پہلی مارچ 2022،

(اردو ترجمہ ، پروفیسر محمد سجاد)

 

اب سے ٹھیک بیس برس قبل احسان جعفری کا قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ گجرات فسادات کی پہلی لہر تھی جس نے صوبے کے کئ شہروں کو تباہ کیا تھا۔ ان میں احسان جعفری کا شہر احمد آباد بھی شامل تھا۔

جعفری نے ملک کی آزادی کی لڑائ بھی لڑ ی تھی۔ مزدور تحریک سے بھی منسلک تھے، اور ادبی حیثیت کے بھی حامل تھے۔ ان کی پیدائش برہانپور میں ہوئ تھی، اور 1935 میں جب صرف چھ برس کی عمر تھی، وہ احمدآباد آ گئے تھے۔ ابھی آر سی ہائ اسکول کے طالب علم ہی تھے کہ ایک اردو رسالہ شائع کیا اور 1940 کی دہائ میں آزادی کی لڑائ میں شامل ہو گئے تھے۔ مزدور تحریک کے راہ نما کی حیثیت سے 1949 میں جیل میں قید کر دئے گئے تھے، کیوں کہ انہوں نے انقلاب کا نعرہ دیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد وہ پروگریسیو ایڈیٹرس یونین کے جنرل سکریٹری منتخب یا مقرر ہو گئے اور قانون کی ڈگری بھی مکمل کی۔ اور احمدآباد کی عدالت میں وکالت کرنے لگے۔ سنہ 1969 ء کے فسادات میں ان کا مکان نذر آتش کر دیا گیا اور ان کی فیملی ریلیف کیمپ میں منتقل ہو گئ۔ تقریباً اپنے پرانے مکان کے مقام پر ہی پھر سے اپنا مکان بنایا۔ یہ احمدآباد شہر کا صنعتی علاقہ تھا، اور بوہرا ہاؤسنگ ایسوسی ایشن، گلبرگ سوسائٹی، بھی قائم کیا۔

جعفری کیلئے 1969 ایک اہم سال تھا۔ فرقہ وارانہ تشدد کے تریاق کے لئے وہ سیکولر سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ انہوں نے اندرا کی کانگریس میں شمولیت اختیار کیااور 1972 میں احمدآباد کانگریس کے صدر مقرر ہوئے۔ سنہ 1977 میں وہ احمدآباد لوک سبھا حلقے کے ایم پی منتخب ہوئے۔ اندرا کی کانگریس او تب خاصی غیر مقبول پارٹی تھی؛ گجرات کی 26 نشستوں میں صرف 10 پر کانگریس کامیاب ہوئ تھی۔ ان سے قبل اور ان کے بعد کوئ مسلمان اس صوبے سے ایم پی منتخب نہ ہو سکا۔ جعفری بھی دوبارہ کبھی کوئ الیکشن نہیں لڑے۔ شعروادب اور عوامی سرگرمیوں سے منسلک رہے۔

فروری 2002 میں انہوں نے راجکوٹ اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں نریندر مودی کی مخالفت کی۔ انتخابی مہم کی ایک عوامی تقریر میں انہوں نے لوگوں سے اپیل کیا کہ آ ر ایس ایس کے نریندر مودی کو ووٹ نا دیں۔ چند ہفتے بعد ان کا قتل کر دیا گیا۔

 

گلبرگ سوسائٹی پر جو حملہ ہوا تھا وہ پولیس کے رویے کی جارحانہ مثال ہے۔ سیٹیزن ٹریبون کی رپورٹ نے یہ اگر کیا کہ گودھرا کے بعد ہونے والے حملوں کی سیریز میں گلبرگ سوسائٹی پہلا نشانہ تھی۔ پھر اس نے ایک پیٹرن کا روپ لے لیا۔ یہاں یقینی طور سے احسان جعفری ہی اہم نشانہ تھے۔ اس علاقے میں بے بسوں کے لئے ان کا کمپاؤنڈ ہی محفوظ ترین جگہ سمجھا جا سکتا تھا۔ آخر کار وہ سابق ایم پی جو تھے۔ اور 1985 کے فسادات میں اعلی حکام نے انہیں تحفظ عطا کیا تھا۔ لھذا تناؤ بڑھنے پر آس پاس کے مسلمان ان کے کمپاؤنڈ ہی میں پناہ گزیں ہو گئے۔ ساڑھے سات بجے صبح وہاں لگ بھگ 200 لوگ پناہ لینے آ چکے تھے۔ ساڑھے دس بجے صبح وہاں پولس کمشنر پی۔ سی ۔ پانڈے آۓ اور جعفری کو یہ بھروسہ دلایا کہ پولس ان کی حفاظت کرے گی۔ پولس کمشنر کے جانے کے پانچ منٹوں کے اندر ہی ظہیر بیکری اور ایک آٹو رکشہ جلا دیا گیا۔ گلبرگ سوسائٹی پر حملہ شروع ہو گیا۔ چشم دیدوں کے مطابق احسان جعفری اور ان کے ساتھ اخیر تک رہنے والی پارسی عورت لگاتار بیقراری کے ساتھ پولس سے گھنٹوں تک ٹیلیفون پر رابطہ کرتے رہے کہ خون کی پیاسی جنونی بھیڑ (لوگوں کی) حملہ آور تھی، لیکن جعفری کے گھر کے پاس کھڑی تین پولس گاڑیاں وہیں رہ کر بھی خاموش تماش بین بنی رہی۔ نو گھنٹوں بعد آر اے ایف والوں نے مداخلت کی۔ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ گلبرگ سوسائٹی کے 69 لوگ مارے جا چکے تھے۔ ان مقتولوں میں احسان جعفری، ان کے تین بھائ، اور دو بھتیجے بھی شامل تھے۔ بوہرا کمیونیٹی کے سربراہ، سیدنا، نے 2002 فسادات کے مظلوموں سے اپنی لاتعلقی اور دوری بنائے رکھی۔ احسان جعفری کے قتل کا ذکر تک کبھی نہیں کیا۔

 

بیس برسوں بعد ان کی موت کو یاد کیا جانا بہت اہم ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ 2002 کے مظالم کی یادیں معدوم کی جا رہی ہیں اور تاریخ کے صفحات میں کھوتی جا رہی ہیں، بلکہ گجراتی سیاست کی جس روایت سے وہ ذاتی طور سے وابستہ تھے، اسے بھی فراموش کیا جا رہا ہے۔ جعفری کانگریس کے اس مخصوص مکتبہ فکر کے حصہ تھے جس کی داغ بیل اندو لال یاگنک نے 1920ء کی دہائ میں ڈالی تھی۔ جعفری اس روایت کے آخری امینوں میں سے تھے۔ یاگ نک غریبوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ یہ ترغیب انہیں مہاتما گاندھی سے ملی تھی۔ لیکن یہ لوگ اب تنہا پڑ رہے تھے،کیونکہ گجرات کانگریس پر رفتہ رفتہ ہندو رجعت پسندوں کا غلبہ قائم ہو نے لگا تھا۔ اس میں سردار پٹیل، کے ایم منشی، گلزاری لال نندا اور مرارجی ڈیسائ جیسے لوگ حاوی ہو رہے تھے۔ یاگنک تو 1920 کی دہائ میں ہی کانگریس سے الگ ہو گئے تھے۔ گاندھی جی بھی بے بس تھے اور انہیں روکنے کی کوشش تک نہیں کر سکے تھے۔ لیکن یاگنک اگلے پچاس برسوں تک گجرات میں روشن خیال سیاست کے مرکز بنے رہے۔ 1969ء کی کانگریس کی ٹوٹ کے بعد وہ اندرا کانگریس سے منسلک رہے، جب کہ ڈیسائ اور دیگر لوگ کانگریس (او )کے ساتھ رہے۔ 1957 سے 1971 تک کے الیکشنوں میں احمد آباد حلقے سے یاگنک ہی منتخب ہوتے رہے۔ اسی سیٹ سے 1977ء میں جعفری منتخب ہوئے تھے۔

جعفری گجرات کانگریس کے کوئ آخری ترقی پسند راہ نما نہیں تھے۔ جن لوگوں نے گجرات سیاست میں ککچھتریہ او بی سی، ہریجن، آدیباسی اور مسلمان کی کھام بلاک بنائ تھی وہ لوگ اندولال یاگنک کے ہی معتقدین تھے۔ انہیں میں سے ایک، مادھو سنگھ سولنکی، گجرات کے وزیر اعلی بنے تھے، 1980 کی دہائ میں۔

سنہ 2022ء گجرات میں اسمبلی چناؤ کا سال بھی ہے۔ کیا کانگریس کا یہ مخصوص روشن خیال مکتبہ فکر اپنی واپسی درج کرا پائے گا؟ یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔

Comments are closed.