یوم خواتین "اور "ساحر لدھیانوی "

 

 

عالمی یوم خواتین بین الاقوامی طور پر 8 مارچ کو منایا جاتا ہے ۔اس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا ہے۔اس دن خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری اقدام اٹھانے کے تحت دنیا بھر میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور خوا تین کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بیدار کیا جاتا ہے۔اس دن کو اہل اردو بھی بڑی عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔کیونکہ اسی دن ہندوستان کے مشہورو معروف نغمہ نگار اور ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں میں شامل شاعر ساحر لدھیانوی کی یوم پیدائش ہے۔

ساحر کا اصل نام عبدا لحیی تھا ۔ان کی ولادت 8 ِمارچ 1921 کو لدھیانہ میں ہوئ،اور 1980 میں 59 سال کی عمر میں آپ اس جہان فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کوچ کر گئے۔

اردو ادب میں ساحر لدھیانوی کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ساحر نے فلموں میں آنے سے پہلے ہی خاصی مقبولیت حاصل کر چکے تھے اور جب انھوں نے فلموں کے لئے نغمے لکھے تو ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔ ساحر نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت بنائ بلکہ اردو کی ادبی دنیا میں بہترین نظمیں لکھ کر بھی اپنا ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔

یوم خواتین کے موقع پر ساحر کی شاعری کے انتخاب کا مقصد یہی ہے کہ ساحر کی نظر میں خواتین کی بہت عزت تھی اور انھوں نے خواتین کے مسائل اور ان کے استحصال کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔یہ عوام و خواص کو معلومات فراہم کروانے کی کوشش کی گئ ہے۔

عورت جو کہ خود صدیوں سے سماج میں مختلف طرح سےظلم و تشدد اور استحصال کا شکار ہوتی چلی آئ ہے اس کی عکاسی ساحر نے اپنی نظموں میں بہت دلیرانہ اور بےباک انداز میں کی ہے۔اردو شاعری میں ساحر کے علاوہ دیگر شعرأ نے بھی خواتین پر ہو رہے ظلم و تشدد پر قلم اٹھایا ہے مگر جس طرح کی پیشکاری ساحر نے کی ہے بے مثال ہے ۔ ساحر نے عورت کے مختلف کرداروں کو اپنی شاعری میں جگہ دیی ہے۔اور ساحر نے اپنی شاعری کے جوہر کو دیگر شعرأ کی طرح عورت کی زلف کے پیچ وخم کو سجانے سنوارنے پہ صرف کیا اور نہ ہی عورت کے سراپے حسن کی بے جا تعریف کرنے کا ذریعہ بنایا بلکہ ساحر نے سماج کی ان عورتوں کے بارے میں لکھا ہے جو معاشرے میں کوئ عزت یا مقام نہیں رکھتی یا جنہیں سماج کے چند ٹھیکیداروں نے بازار کی زینت بنا رکھا ہےاور جنھیں معاشرہ اچھوت سمجھتا ہے۔ ؂

 

عورت نے جنم دیا مردوں کو ،مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

مردوں کے لئے ہر ظلم روا ، عورت کے لیے جینا بھی خطا

مردوں کے لیے لاکھوں سیجیں،عورت کے لیے بس اک چتا

عورت نے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ساحر لدھیانوی نے بڑے غور سے طبقاتی تقسیم کا مشاہدہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی ماں سردار بیگم کو اس آگ میں جلتے ہوئے دیکھا تھا کیونکہ ان کے والد فضل علی نے درجن بھر شادیاں کی تھیں۔ایسی صورت میں ساحر کا اپنے آباواجداد اور اس نظام ، جسکی وہ نمائندگی کرتے تھے متنفر ہونا لازم تھا۔ساحر کے والد نے اپنی گیارہویں بیوی یعنی ساحر کی ماں کو اس لیے مخفی رکھنے کی کوشش کی کہ وہ ان کے خاندان کے برابر نہیں تھیں لہزا ان کے والد نے ساحر کو اپنانے کے لئے مقدمہ کر دیا مگر ساحر نےانگشت سے ماں کی جانب اشارہ کیا تو عدالت بھی ساحر کو اپنی ماں سے جدا نہ کر پائ ۔ساحر نے اپنی ماں کے ہمراہ زندگی کے تمام نشیب و فراز کو دیکھااور شب وروز بہت پریشانیوں میں گزارے۔وہ اپنی ماں سے بہت عقیدت رکھتے تھے،ان کا کہا کبھی نہیں ٹالتے تھےاور ماں پر ہوئے ظلم و ستم کو انھوں نے بہت قریب سے محسوس کیا تھا ۔ساحر کی تمام عمر ماں کے ہمراہ گویا زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرنے میں بسر ہوئ۔ ؂

 

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

 

ساحر پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایک عورت مرد کے لئے صرف جنسی تسکین کا سامان ہےاور انہوں نے آگے چل کر اپنی شاعری میں ایسے سماج پر گہری چوٹ کی ہے جہاں مزہب کا استعمال استحصال کے لیے کیا جاتا ہے۔۔اس ضمن میں نظم "چکلے” کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔یہ نظم ایک طرف ساحر کی فنکاری کا عمدہ نمونہ ہے تو دوسری طرف عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انہیں جنسی تلزذ کی حد تک محدود رکھنے کے خلاف احتجاج بھی ہے۔انھوں نے ایسے سماج پر کڑی چوٹ کی ہے جو عورت کو صرف اور صرف جنسی لذت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔؂

 

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

 

یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار

یہ گم نام راہی یہ سکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

 

ساحر نے ایک گیت میں عورت کو مردوں کی طرف سے فقط جسم سمجھے جانے کے خیال کو اس انداز سے پیش کیا ہے ؂

 

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

 

اور کبھی کبھی تو ساحر کا ایک الگ ہی انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک باپ کے جزبات اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے ؂

 

بابل کی دعائیں لیتی جا ،جا تجھکو سکھی سنسار ملے

میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے

 

اسی طرح ایک گیت میں ایک بہن اپنے بھائ کے لیے کیسے پاکیزہ جذبات وخیالات رکھتی ہےاس کا بیان ساحر بہت دلکش انداز میں کرتے ہیں ؂

 

میرے بھیا، میرے چندا، میرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئ چیز نہ لوں

 

ساحر کو دو فلم فیئر ایوارڈ 1964 اور1977 کے ساتھ سرفراز کیا گیا جبکہ ان کی فلمی و ادبی خدمات کی قدر کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے 1971میں انھیں پدم شری سے بھی نوازا گیا۔

بے شک آج ساحر کو ہم سے جدا ہوئے کئ سال گزر چکے ہیں اور اس دوران دنیا نے ترقی کی بہت نئ نئ منزلیں طے کی ہیں۔مگر جب ہم یوم خواتین کے پس منظر میں عورت کی حالت کو دیکھتے ہیں تواسکے حالات میں کوئ خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔جس مظلوم عورت کا ساحر نے اپنی نظموں میں ذکر کیا ہے ویسی عورتیں آج بھی ہمیں اپنے اردگرد دیکھنے کو اکثر ملتی ہیں۔آج بھی عورت مرد کے ظلم و تشددکا شکار ہوتی ہے،آج بھی کوئ نہ کوئ معصوم زینت حیوان نما درندوں کا لقمہ بنتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ‘یوم خواتین’ منانے کی بجائے اپنے مقام اور مرتبے کو پہچانیں اور اس نظام کو اپنے اوپر نافذ کریں جس سے ان کو معاشرے میں با عزت مقام حاصل ہو سکے ؂

بڑھنے کو بشر چاند سے آگے بھی بڑھا ہے

یہ سوچئے کردار گھٹا ہے کہ

بڑھا ہے

 

 

مسرت جہاں

جامعہ نگر ،نئ دہلی

Comments are closed.