Baseerat Online News Portal

طلبہ مودی جی کو شکریہ کیوں کہیں؟؟

نور اللہ نور

بصیرت آن لائن

آج فیسبک پر ایک ویڈیو نظر سے گذری جس میں "سدھیر چودھری ” یوکرین سے واپس بحفاظت لائے گئے طلبہ سے نالاں نظر آئے ان کا کہنا ہیکہ ان طلبہ کے اندر نہ تو تہذیب ہے اور نہ ہی وطن کے تئیں کوئی پیار ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ باہر جاکر ہندوستان کی ریتی رواج سے بھی ناطہ توڑ لیا ہے انہوں نے اس مدد پر نہ تو عوام کا شکریہ ادا کیا اور نہ ہی مودی جی کو تھینک یو کہا۔ ان کا کہنا ہیکہ یہ طلبہ اپنے رویے سے یہ بتلانا چاہ رہے تھے کہ ان کو واپس لانا ہم ہندوستانی لوگوں کا حق تھا یہاں کی سرکار نے کوئی احسان نہیں کیا۔
دراصل معاملہ یہ ہیکہ یوکرین میں جب جنگ شروع ہوئی تو وہاں حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے طلبہ نے حکومت ہند سے فریاد کی مگر ہندوستانی سفارت خانے سے بروقت ان کو امداد نہیں ملی اور ان کو بہت سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا جن سے وہ کبیدہ خاطر ہوگئے۔ انہوں نے ہندوستانی حکومت سے جو توقعات وابستہ کئے تھے جب حکومت امید پر کھڑا نہیں اتر سکی تو طلبہ کی ناراضگی عروج پر پہنچ گئی اس کے بعد چار و ناچار حکومت نے جب ان کو واپس لایا تو ایر پورٹ پر موجود حکومتی عملے کو فضیحت اٹھانی پڑی کیونکہ ان بچوں نے ان کو خاطر ہی میں نہیں لایا نہ ان کو تھینک یو کہا اور نہ ہی ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ سیدھے گھر کا راستہ لیا۔
اگر دیکھا جائے تو طلبہ کی یہ ناراضگی بجا ہے اور وہ اس معاملے میں حق بجانب ہیں اور مودی حکومت کو یہ جو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے وہ ان کے خود اپنے کئے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ جب سارے ممالک اپنے بچوں کی مدد کے لئے کوشاں تھے اس وقت آپ چناؤ میں منہمک تھے جس وقت ان بچوں کی فکر کرنی چاہیے ان کو الیکشن کہ پڑی ہوئی تھی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری ان کی امداد کی جائے مگر انہوں نے نہیں کیا تو کریڈٹ کس بات کے لیے ملنا چاہیے سدھیر جی؟
دوسری بات یہ ہیکہ جس طرح ایک اعلی عہدیدار کا فرزند غیر ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اسے پوری مراعات حاصل ہوتی ہے اس کو جس طرح تحفظ فراہم کیا جاتاہے ہے اسی طرح یہی حقوق ان بچوں کا بھی ہے یہ بھی پڑھنے کا حق رکھتے ہیں اور انہیں بھی پوری مراعات فراہم کرنا ان کا واجبی حق ہے تو حکومت نے انہیں واپس لاکر احسان تو کیا ہے لیکن احسان جتلانا اور واوہی کا خواہاں ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ ان کا حق بھی ہے۔
تیسری بات یہ کہ آپ ان بچوں کے باہر جانے سے نالاں ہیں لیکن کبھی حکومت نے اس جانب توجہ ہی نہیں کی کہ آخر ہمارے ممالک کے بچے دوسرے ملک کیوں جاتے ہیں؟ بات یہ ہیکہ آپ نے یہاں تعلیم کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ سب کی رسائی نہیں ہوتی ، اسکیموں پر صاحب ثروت کا غلبہ ہے وہ غریب تک پہنچتے پہنچتے ہی ختم ہوجاتا ہے انہیں مل ہی نہیں پاتا ہے۔ اعلی تعلیم کے لئے یہاں کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں جو ہر ایک کے بس کا نہیں ہے اس پر بھی امتحان پاس کرنے کے بعد نوکری بھی یقینی نہیں ہوتی ہے ڈاکٹر انجینئر بن کر بھی پکوڑے بیچتے ہیں جب آپ کے سسٹم میں اتنی خامیاں ہیں اور آپ ان کو تعلیمی وسائل مہیا نہیں کراسکتے ہیں تو ان کے غیر ممالک میں پڑھنے پر بھی چیں بہ جبیں ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے آپ لوگوں کے پاس۔
جب یہی غیر ممالک میں پڑھا ہوا کوئی ہندوستانی طالب علم کوئی انوکھا کارنامہ انجام دے گا تو چیخ چیخ کر سارا سہرا مودی جی کے سر باندھیں گے مگر مصیبت کی گھڑی میں ان طلبہ کی مدد نہ کرنے پر مودی جی سے سوال کرنے کے بجائے طلبہ کو لعن طعن کریں گے یہ کہاں کا انصاف ہے بھائی؟
جب ان کو آپ کی ضرورت تھی، جس وقت آپ سے وہ مدد کا مطالبہ کر رہے تھے اس وقت آپ نے کان نہیں دھرا اور بعد میں جھوٹی ہمدردی دکھانے جارہے ہیں ظاہر اس رویے پر کسی کو بھی غصہ آئے گا اور کوئی بھی نالاں ہوگا اس لئے سدھیر جی! بچوں کو برا مت کہئے بلکہ اپنی غلطی تسلیم کیجئے! اور آپ نے جو تساہلی برتی ہے اور جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے حساب سے نہ تو آپ شکریہ کہنے کے مستحق ہیں اور نہ ہی مودی جی کو اس کا حق ہے۔

Comments are closed.