ماہ شعبان اور شب برات کی فضیلت

 

اسجد عقابی

استاذ دارالعلوم وقف دیوبند

ماہ شعبان اسلامی مہینہ کے اعتبار سے آٹھواں مہینہ ہے۔ اور اس مہینہ کے بے شمار فضائل و مناقب موجود ہیں۔ آپ ﷺ نے اس مہینہ میں برکت کی دعا مانگی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان”۔ اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور رمضان تک ہمیں سلامتی کے ساتھ پہنچا۔ آپ ﷺ اس مہینہ کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ نفل روزے کثرت سے رکھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: "ما رایت النبی ﷺ فی شھر اکثر صیاما منہ فی شعبان کان یصومہ الا قلیلا بل کان یصومہ کلہ”۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی مہینہ میں (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)  شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا ،  آپ ﷺ کچھ دنوں کے علاوہ پورے مہینہ کے روزے رکھتے تھے بلکہ پورے مہینے کے روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ ماہ شعبان میں کثرت سے عبادت کی جانب متوجہ رہتے تھے۔ ماہ شعبان میں اس کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ ایک دوسری حدیث یہ مذکور ہے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا: "لم ارک تصوم شھرا من الشھورما تصوم من شعبان، قال: ذالک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب و رمضان، وھو شھر تُرفع فیہ الاعمال الی رب العالمین، فاحب ان یُرفع عملی و انا صائم”۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: جتنے (نفلی) روزے آپ  ماہ شعبان میں رکھتے ہیں میں نے کسی اور مہینہ میں آپ کو اس قدر روزہ رکھتے نہیں دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان کا وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہوجاتے ہیں ، اور اس مہینہ میں اعمال اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پہنچائے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پہنچائے جائیں تو میں روزہ سے رہوں۔ان کے علاوہ، اس ماہ شعبان میں ایک عظیم رات ہے جسے شب برات کہا جاتا ہے۔ اس رات اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ شب برات کی فضیلت کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں۔ شب برات کی فضیلت کے قائل علماء و محدثین کی بڑی جماعت رہی ہے۔   

شب برات کی فضیلت

بر صغیر میں شب برات کو بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ شب برات کو عبادت کی رات کے طور پر نہیں بلکہ تہوار کے طور پر منائے جانے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ شب برات کے متعلق ایک عمومی رجحان یہ ہے کہ اسے جاگ کر گزارنا ہے، لیکن جاگنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے اور کیوں جاگنا چاہئے اس جانب توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ چند متقی اور پارسا افراد تو اس شب کو عبادت الہٰی میں گزارتے ہیں لیکن اکثر فضول کاموں ، لہو ولعب اور بدعات و خرافات میں بسر کردیتے ہیں جس شب کو عبادت کے لئے مختص کیا گیا تھا اسے غیر ضروری اور بے فائدہ کاموں میں لگ کر ضائع کردیا جاتا ہے۔

شب برات کی فضیلت کے متعلق دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک وہ جو سرے سے ہی شب برات کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں اور دوسرے وہ  جو شب برات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ پہلے طبقہ کی دلیل  ہے کہ شب برات کی فضیلت کے سلسلہ میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں اس لئے ان پر حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ کی دلیل میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی رائے زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے وہ کہتے ہیں : "شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے”۔ شب برات کی فضیلت کے متعلق دس صحابہ کرام سے روایتیں ثابت ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کی حقیقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابتداء اسلام سے آج تک علماء کرام کی کثیر جماعت نے شب برات کی فضیلت کو بیان کیا ہے اور اس میں عبادت و غیرہ کرنے کی ترغیب دی ہے”۔

شب برات کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

شب برات کی فضیلت کے متعلق سب سے مشہور حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ان اللہ عز و جل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا، فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب”۔ اللہ تعالٰی پندرھویں شب کو سماء دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں سے زیادہ کی تعداد میں انسانوں کی بخشش فرماتےہیں۔

شب برات کی فضیلت کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث  ہے: "ھذہ لیلۃ النصف من شعبان، ان اللہ عز و جل یطلع علی عبادہ فی لیلۃ النصف من شعبان فیغر للمستغفرین، و یرحم المسترحمین، و یوخر اھل الحقد کما ھم”۔ یہ پندرہ شعبان کی رات ہے، اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات اپنے بندوں پر خصوصی رحمت کی نظر فرماتے ہیں، مغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت کرتے ہیں، رحم کی درخواست کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور کینہ و بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

حضرت عطاء بن یسار سے مروی ہے: "ما من لیلۃ بعد لیلۃ القدر افضل منھا، یعنی لیلۃ النصف من شعبان ینزل اللہ تبارک و تعالٰی الی سماء الدنیا فیغفر الا لمشرک او مشاحن او قاطع رحم”۔ لیلۃ القدر کے بعد کوئی رات شعبان کی پندرھویں شب سے زیادہ افضل نہیں ہے۔ اس رات اللہ تعالٰی سماء دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ہر کسی کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے مشرک، کینہ پرور اور قطع تعلق کرنے والوں کے۔

ان روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شب برات میں اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر خصوصی رحمت کی نظر فرماتے ہیں اور سائلین کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر کے بعد سب سے افضل ترین رات یہی ہے اور اس رات اللہ تعالٰی اپنے بندوں کے متعلق  فیصلے فرماتے ہیں۔

مذکورہ بالا احادیث اور دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شب برات کو عام بخشش ہوتی ہے۔ اس رات جو لوگ اللہ تعالٰی سے مانگتے ہیں اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں ان کی مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ ان کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ ان کی خطاؤں کو درگزر کیا جاتا ہے۔ ان کے جائز مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ لیکن بعض  ایسے گناہ ہیں جن میں مبتلا اشخاص کی اس رحمت والی رات (شب برات) میں بھی بخشش نہیں ہوتی ہے اور وہ لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں میں اس حد تک پھنسے ہوتے ہیں کہ اس رات بھی اللہ کی رحمت ان کی جانب متوجہ نہیں ہوتی ہے۔ کفر و شرک میں مبتلا شخص (2) کینہ اور بغض رکھنے والا (3) رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا (4) کسی کو ناحق قتل کرنے والا (5) والدین کی نافرمانی کرنے والا (6) زانی اور زانیہ۔ یہ وہ گناہ ہیں جن کی قباحت و شناعت قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ ان کے متعلق وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں مبتلا اشخاص کو محروم القسمت اور شقی القلب بتایا گیا ہے۔ ان کبیرہ گناہ کے عادی افراد شب برات کی خصوصی رحمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی رحمت دیکھئیے کہ اس نے معتین کردیا کہ  اگر فلاں قسم کے گناہ میں مبتلا ہو تو بخشش نہیں ہوگی تاکہ بندہ مومن اس رات سے قبل اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو، صدق دل سے توبہ کرے، رب رحیم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہواور آئندہ کے لئے گناہوں سے دور رہنے کے عزم مصمم کے ساتھ اس فضیلت والی رات کا استقبال کرے اور اس کی فضیلتوں سے مستفید ہو۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے فرماتے ہیں: "ادعونی استجب لکم”۔ مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔

شب برات میں قبرستان جانا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث سے ہی آپ ﷺ کا قبرستان جانا ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں جو روایت ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ایک مرتبہ قبرستان تشریف لے گئے تھے یہ کوئی آپ کا معمول نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ہر سال اس موقع پر  باضابطہ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شب برات کے موقع سے قبرستان جانے کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کوکوئی ترغیب نہیں دی ہے نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ اس سلسلہ میں مفتی تقی عثمانی صاحب نے بہت اچھی توجیہ پیش کی ہے، وہ کہتے ہیں: ” اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے”۔  لیکن افسوس! ہمارے معاشرہ میں دین کے نام پر بے شمار خرافات نے اپنی جگہ بنالی ہے۔ غیر ضروری باتوں کو دین کا جز سمجھ لیا گیا ہے اور دین کے حقیقی اجزا کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ قبرستان جانے کا رواج اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لوگ ہجوم اور ٹولیوں کی شکل میں قبرستان جاتے ہیں۔ راستہ بھر مٹر گشتی کرتے ہوئے قبرستان پہنچتے ہیں اور طرح طرح کی خرافات میں مبتلا ہوکر پوری رات ضائع کردیتے ہیں۔ بعض لوگ شب برات میں اپنے مرحومین کی قبروں پر چراغاں کرتے ہیں اور ان پر پھول بوٹے لگواتے ہیں یہ سمجھ کر کہ یہ تمام اعمال شب برات کا حصہ ہیں۔  حالانکہ یہ تمام خرافات ہیں جن کا شب برات کی فضیلت یا اہمیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ثبوت ہے۔

شب برات کی بدعات و رسومات

ہمارے بعض احباب نے شب برات کو فرض یا واجب کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کے نزدیک اس رات میں جاگنے کا اہتمام کرنا ہی سب سے اصل عبادت ہے۔ اس کام کے لئے مختلف حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ مساجد میں باضابطہ اعلان کرایا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر شبینہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ چائے نوشی اور رت جگے کے مکمل انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اگر اپنے محلہ یا علاقہ میں کوئی بہترین مقرر یا نعت خواں نہ ہو تو انہیں باہر سے بلایا جاتا ہے۔ گھنٹوں تک تقاریر اور نعت خوانی کا دور چلتا ہے اور یہ سب کچھ شب برات کی فضیلت کے طور پر کئے جاتے ہیں۔ ان امور کے انتظامات میں اس درجہ غلو ہوجاتا ہے کہ بسا اوقات لوگ فرائض و واجبات کی جانب سے بے پرواہ ہوجاتے ہیں۔یا پھر وہ حضرات جو حقیقتا اس رات کو عبادت الہٰی میں لگانا چاہتے ہیں ان کے لئے پُرسکون ماحول فراہم نہیں ہوپاتا ہے اور ان کا بیشتر وقت شور شرابوں کی نظر ہوجاتا ہے۔  

شب برات کی نماز

موجودہ دور میں ایک نئی وبا یہ پھیل گئی ہے کہ عوام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جس طرح عید بقر عید کی مخصوص نمازیں ہیں اسی طرح شب برات کی نماز بھی مخصوص ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شب برات کی نماز سو رکعت ہے۔  جبکہ بعض جگہوں پر اس رات میں ختم قرآن کے نام پر شبینہ کو شب برات کی نماز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت مطہرہ میں کوئی ایسی روایت یا کوئی ایسا حکم موجود نہیں ہے جس سے اس طرح کی باتوں کا ثبوت ملے۔ شب برات میں عبادت کرنا نفل کا درجہ رکھتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ خشوع خضوع کے ساتھ حسب توفیق جس قدر ہو سکے نماز اور تلاوت کلام اللہ کا اہتمام کرے۔ اجتماعی صورت اختیار کرنے سے احتراز کریں۔ ذکر و اذکار اور تسبیح و تحمید میں وقت لگائے، بشاشت کے ساتھ عبادت میں لگا رہے، پوری رات جاگنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی مقدار نہیں بلکہ اخلاص دیکھتا ہے۔ اخلاص سے کیا ہوا چھوٹا سے چھوٹا عمل بھی اللہ کے نزدیک اجر عظیم کا مستحق ہوتا ہے۔

شب برات کی قرآن خوانی

ایک رسم شب برات میں یہ عام ہوگئی ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر اپنے مرحومین کے لئے ایصال ثواب کرتے ہیں۔ اپنے مرحومین کے لئے ایصال ثواب کرنا، دعا کرنا، ان کے لئے قرآن پڑھنا نیک عمل ہے۔ ان مرحومین کا زندوں پر حق ہے کہ ان کے لئے ایصال ثواب کیا جائے اور ان کے نام پر صدقہ و خیرات کیا جائے لیکن اس کام کے لئے وقت متعین کرنا، مہینہ متعین کرنا، دن تاریخ متعین کرنا اور خود اس کام کو انجام دینے کے بجائے دیگر لوگوں کو مدعو کرنا اور ان کے شرب و خورد کا انتظام کرنا اسلامی روح کے خلاف ہے۔ یہ حالات تو گاؤں دیہات کے ہیں، شہر کے ماحول کا اللہ ہی حافظ۔ اس رسم بد نے اس قدر زور پکڑ لیا ہے کہ اگر کوئی صاحب یہ عمل کرنے سے اجتناب کرے تو علاقہ محلہ میں اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ قرآن خوانی کی ابتدا تو ماہ شعبان کے آتے ہی شروع ہوجاتی ہے لیکن شب برات میں اس کا حد سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ دین میں ایسی چیزوں کو داخل کرنا اور انہیں ضروری سمجھنا جس کا دین میں کوئی وجود نہیں ہے بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور بدعت کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ جب بدعت اپنا ٹھکانہ بنالیتی ہے تو بندہ سنت نبوی ﷺ سے محروم ہوجاتا ہے۔

ان بدعات و رسومات کے علاوہ بعض غلط عقائد پر مبنی روایات معاشرہ میں پائی جاتی ہیں۔ گھر وغیرہ کی لیپا پوتی اس نیت سے کہ اس سے گھر کی بَلائیں دور ہوجائیں گی۔ گھروں میں موم بتیاں جلانا کہ ہمارے مرحومین کی روحیں آج رات ہمارے گھروں میں آئیں گی۔ بعض علاقوں میں باضابطہ کھیر وغیرہ پکاکر الگ سے رکھ دیا جاتا ہے کہ ہمارے مرحومین کھائیں گے۔ مخصوص قسم کے کھانے تیار کرنا شب برات کی نیت سے۔ گھر اور مساجد کو سجانا اور باضابطہ تہوار کے طور پر شب برات کو منانا۔ اسی طرح غیر ضروری اعمال میں وقت ضائع کرنا یہ سب بدعات و خرافات کے زمرہ میں شامل ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی اصل موجود نہیں ہے۔ شب برات میں عبادتوں کا اہتمام، نوافل کی ادائیگی، کلام اللہ کی تلاوت، ذکر و اذکار، تسبیح و تحمید، صدقات و خیرات سب نوافل میں سے ہیں ان کو فرائض کا درجہ دینا اور اس پر اصرار کرنا اسلامی روح کے منافی ہے۔ شب برات بلاشبہ ایک عظیم رات ہے۔ اس رات کا حق یہ ہے کہ اسے اللہ رب العزت کی عبادات میں صرف کیا جائے۔ اپنی سابقہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے۔ اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائے جائے۔ اپنی کمی و کوتاہی کے لئے رب ذو الجلال سے معافی مانگی جائے۔ دین مستقیم پر قائم رہنے کی دعا مانگی جائے۔ ایمان کی حفاظت اور قلب کی سلامتی کے لئے التجا کیا جائے۔ تنہائی میں  رب کریم سے گڑگڑا کر اس کی رحمتوں اور بخشش کو طلب کیا جائے۔اور زیادہ سے زیادہ وقت وحدہ لا شریک لہ کی یاد میں بِتایا جائے۔ یہ اعمال شب برات میں کرنے کے ہیں، بیجا کھیل تماشوں او ر وقت گزاری سے شب برات کی فضیلت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں شب برات کی فضیلت کو حاصل کرنے کی توفیق بخشے اور بدعات و رسومات سے محفوظ رکھیں۔   

Comments are closed.