مسیحیوں کی گمراہی کا ایک بڑا سبب

 

محمد صابر حسین ندوی

 

مسیحیوں کی گمراہیوں میں سے ایک بڑی گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ پوپ و پادری اورگرجا گھر کو ہی سب کچھ مان بیٹھے، ان کے نزدیک ان رہبان کا فرمان نص کا درجہ پا گیا تھا، وہ شرک اور وحدانیت کا فرق بھول گئے تھے، آسمانی کتاب اور انسان کے قول کو برابر سمجھ بیٹھے تھے، وحی اور غیر وحی میں فرق کرنا نہیں آتا تھا، جو کچھ ان کے بڑے، دین کے ٹھیکیدار کہہ دیتے وہی صداقت تھی اور جس چیز سے روک دیتے بَس اسی کو ممنوع جانتے تھے؛ وہ گویا اللہ تعالی کے ساتھ انہیں شریک جان چکے تھے، نتیجتاً انہیں ثریا سے زمیں پر دے مارا گیا، یہ حقیقت ہے کہ جس قوم کو آسمانی نور حاصل ہو اور پھر وہ شرک و بت پرستی کی مشابہت اختیار کر لے تو اسے برباد ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا، تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جن اقوام نے وحدانیت پر مصالحت سے کام لیا انہیں تباہ کردیا گیا، صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا گیا، امت مسلمہ کی یہ خاصیت ہے کہ اسے یک بیک تہہ و تیغ نہیں کیا جائے گا، خسف و مسخ کے عذاب سے انہیں محفوظ رکھا گیا ہے؛ لیکن اگر انہیں عروج اور سربلندی سے ضرور پھینک دیا جائے گا، چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قوم اللہ تعالی سے دور اور علماء سوء سے زیادہ قریب ہوگئی ہے؛ حتی کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ شرکیہ کلمات منسوب کر رہے ہیں، اب ان کے وہ علماء جو خاندان اور نسب کی روٹی کھاتے ہیں، جنہیں قوم وملت نے سر آنکھوں پر بٹھایا، جنہوں نے آزادی ہند سے لیکر آج تک قوم کو پیچھے دھیکیلنے اور کانگریس کی غلامی کرتے ہوئے سیاست کا میدان خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا، جنہوں نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں پہنچا دیا کہ اب انہیں کہیں بھی مار دیا جائے، قتل کردیا جائے اور پھینک دیا جائے، ان علمائے سوء نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اب باقاعدہ امت مسلمہ میں موجود وحدانیت کی حس ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لگاتار ایسے بیانات دئے جارہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شرک اور وحدانیت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، جو چاہیں وہ کر سکتے ہیں، اللہ غارت کرے ایسے ملاؤں کو جنہوں نے قوم کی کشتی ڈبونے کی ٹھان لی ہے، وقت ہے کہ مسلمان مسیحیوں کی غلطی سے سیکھیں، قرآن و سنت کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور علمائے حق کی صحبت اختیار کریں، ورنہ انجام وہی ہوگا جو ان مسیحیوں کا ہوا جنہوں نے اپنے علماء کو شتر بے مہار چھوڑ دیا تھا اور ان کی اتباع میں اندھے بہرے ہوگئے تھے۔

اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے:اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ – – – "انھوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو ، نیز مسیح بن مریم کو اللہ کے مقابلہ میں رب بنالیا ہے ؛ حالاں کہ ان سب کو ایک ہی معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، یہ لوگ جسے شریک و ہمسر ٹھہراتے ہیں ، اللہ ان کے شرک سے پاک ہے.” (توبہ:٣١) مولانا عبد الماجد دریابادی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:” یعنی انہیں مستقلا ایسا صاحب اختیار مان رکھا ہے کہ گویا وہی معبود اور رب ہیں، جو چاہیں وہ جائز کردیں، جو چاہیں، وہ حرام ٹھہرا دیں۔ سارے اختیارات چرچ (کلیسا) کو دے رکھے ہیں۔ یہود کے ہاں بھی ربیون کے احکام، خود توریت کی تعلیمات پر غالب آگئے تھے، الاکثرون من المفسرین قالوا لیس المراد من الارباب انھم اعتقدوا الھھم انھم الھۃ العالم بل المراد انھم اطاعوھم فی اوامرھم ونواھیھم (کبیر) آیت کی تفسیر ماثور بھی یہی ہے۔ عدی بن حاتم نومسلم عیسائی کی روایت کتب حدیث میں درج ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم لوگ اپنے مقتداؤں اور پیشواؤں کو خدا کب مانتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حلال و حرام کے اختیارات ان میں مان لینا، عملا انہیں خدائی اختیارات دے دینا اور رب کے مرتبہ پر پہنچا دینا ہے۔ آیت میں مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے۔ انہوں نے بھی مختلف اماموں اور مشائخ کو مستقل مطاع قرار دے کر عملا انہیں معصومیت بلکہ خدائی کے مرتبہ پر پہنچا دیا ہے۔ قرآن کی صریح آیت کو، اپنے ضمیر کی صریح شہادت کو، کھلے ہوئے مشاہدہ کو سب کو چھوڑدیں گے لیکن اپنے شیخ کے قول کو نہ چھوڑیں گے ! امام رازی (رح) نے اس موقع پر اپنے استاد (رح) کا قول نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میری نظر سے ایسے مقلدین جامد گزرے ہیں جن کے سامنے ان کے مسلک کے خلاف میں نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھ کر سنائیں، انہوں نے آیات کے آگے سرتسلیم خم نہ کیا، ان کی طرف التفات نہ کیا، الٹے حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے کہ ان کے اسلاف کے مسلک کے خلاف یہ آیات قرآنی ہو کیونکر سکتی ہیں۔ اور تاویل بجائے ان کے اقوال کے خود ان آیات میں کرنا چاہیے۔ یہ قول نقل کرکے امام موصوف خود لکھتے ہیں کہ :۔ لوتاملت حق التامل وجدت ھذا الداء ساریا فی عروق الاکثرین من اھل الدنیا ! کہ غور کرکے دیکھا جائے تو اکثر اہل دنیا اسی بیماری میں مبتلا نظر آئیں گے۔ ” من دون اللہ “۔ یعنی اللہ کی توحید فی الطاعت چھوڑ کر۔” (دیکھئے: تفسير ماجدی)

Comments are closed.