سفر راورکیلا کے چند خوشگوار لمحات

امجد صدیقی
راورکیلا میرے بچپن کا شہر ہے، میں نے تعلیمی دور کے ابتدائی دو سال جامعہ حسینیہ راورکیلا کے علمی ماحول میں گزارے، بہت پرسکون اور پرامن شہر ہے، سڑکیں وسیع ہیں، ہر جگہ بھیڑ بھاڑ رہتی ہے، مگر ہنگامہ نا کے برابر – ہمارے بچپن کے اور ابھی کے راورکیلا میں کافی فرق آگیا ہے، ماحول کے ساتھ شہر کی تہذیب وثقافت میں بھی تبدیلی آئی ہے، پہلے لوگ سادہ دل تھے اب شاید رنگین دل ہوگئے ہیں، مزاج تو بہر حال پہلے سے ہی رنگین ہے –
لوگوں کے معمولات پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، پہلے بھی پیچیدہ تھے لیکن اب زیادہ ہو گئے ہیں، مختلف مذاہب کے ماننے والے یہاں رہتے ہیں، اکثریت ہندؤوں کی ہے، مسلمانوں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے، میرا مادر علمی جامعہ حسینیہ ایک قدیم خالص علمی وتربیتی درسگاہ ہے!
*مولانا شعیب صاحب دربھنگوی*
مولانا شعیب صاحب میرے رفیق خاص ہیں، دیوبند کے دارالعلوم زکریا سے رفاقت شروع ہوئی،تقریبا دس سال کا عرصہ گزر گیا مگر دوستی میں کبھی کمی نہیں آئی ، البتہ بیشی ضرور ہوئی ہے، الحمد اللہ ہم دونوں کے دوستانہ مراسم میں پہلے سے زیادہ خلوص ہے، عمر میں مجھ سے بڑے ہونے کی وجہ سے دوستانہ احترام ملحوظ خاطر رہتا ہے، مولانا شعیب صاحب کو لکھنے بڑھنے کا بھی ذوق و ملکہ حاصل ہے؛ پانپوش راورکیلا کی مسجد میں امام ہیں، با استعداد عالم اور بصیرت مند خطیب ہیں!
مولانا شعیب صاحب کے ہی اصرار سے مجھے دوبارہ راورکیلا دیکھنے کی توفیق ملی، اس سے قبل ایسی عمر میں راورکیلا کو دیکھتا تھا جس عمر میں صرف دیکھنے والی نظر تھی؛ نطریہ نہیں تھا اب نظر بھی ہے اور نظریہ بھی!
رات نوبجے کے قریب میں راورکیلا ریلوئے اسٹیشن پہونچ گیا؛ مولانا شعیب صاحب نے اپنے کسی متعلق کو اسٹیشن پہلے بھیج دیا تھا، اسٹیشن سے پانپوش بائک سے بیس منٹ کا فاصلہ ہے- پہونچتے ہی مولانا نے پرزور استقبال کیا، چونکہ عشائیہ کا وقت تھا اس لئے سفری نماز سے فارغ ہوکر بلا تکلف دسترخوان پہ بیٹھ گیا، اگر میں ہمیشہ استعمال ہونے والے لفظوں کے سہارے کہوں کہ مختلف انواع واقسام کی ڈشیں تھیں تو کھانے کی تذلیل ہوجائے گی، اس لئے بس اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ بریانی کے علاوہ ساری ڈشیں میرے لئے نئی تھیں؛ اور ایسا بھی نہیں کہ چائنیز یا مغربی تھیں بلکہ سارے کھانے مشرقی روایات کے حامل تھے!
کھانے سے فارغ ہوکر مجھے مدرسہ ابوبکر صدیق لے جایا گیا جہاں میرے قیام کا نظم تھا!
*جامعہ ابوبکر صدیق پانپوش*
جامعہ ابوبکر صدیق ایک نیا تعلیمی ادارہ ہے، جس کے مہتمم میرے غیر متعلق استاذ محترم حافظ عین الحق صاحب ہیں؛ جامعہ حسینیہ کے زمانے میں حافظ صاحب حفظ کے مستند، لائق اور قابل استاذ شمار کئے جاتے تھے – اب جامعہ ابوبکر صدیق میں اہتمام کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں!
*مولانا منظور صاحب*
مولانا منطور صاحب ایک انجمن کا نام ہے، کئی پیڑھیوں کو اپنے علمی فیوض سے سیراب کیا ہے، اور نئی نسلوں کو ابھی تک کر رہے ہیں؛ روارکیلا اور اس کے اطراف کے لئے سب سے قدیم چہرہ ہے، تقریبا تیس سال تک مدرسہ حسینیہ روارکیلا میں صدرالمدرسین کے عہدے کو زینت بخشتے رہے؛ حضرت الاستاذ ایک پیر سے معذور ہیں مگر اپنی معذوری کو ہمالیہ جیسے عزم اور چٹان جیسے حوصلوں کے مضبوط سائبان میں تھکنے نہیں دیا،اپنی پیرانہ سالی اور معذوری کے باوجود وہی جوش وجذبہ ہے جو جوانی میں ہوا کرتا ہے، میں نے مولانا منظور صاحب سے پوچھا کہ حضرت آپ میں ابھی تک اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے، کہنے لگے بیٹا؛ قرآن وحدیث کا تدریسی ذوق بوڑھا ہونے نہیں دیتا !
ہم نے مولانا سے نحومیر، مالا بد منہ اور ہدایۃ النحو جیسی اہم کتابیں پڑھی ہیں، مولانا کی زبان بڑی تیز رفتار سے چلتی تھی، مگر طلباء کو سبق کلاس میں ہی ذہن نشیں ہوجاتا تھا، بعد میں نظر ثانی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، ان کے وجود سے مدرسہ حسینیہ کا ورق ورق سبز وشاداب رہتا تھا!
مولانا منظور صاحب دارالعلوم مؤناتھ بھنجن سے فارغ التحصیل ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمہ اللہ علیہ کی خاص توجہ اور شفقتیں مولانا کو حاصل تھیں؛ حضرت قاضی صاحب کی ایماء پر ہی روارکیلا میں تدریسی خدمات پر مامور ہویے تھے؛ مجھ ناچیز پر بھی مولانا منطور صاحب کی خاص نظریں رہتی تھیں؛
سبق پڑھاتے وقت دیگر طلباء کو ایک بار دیکھتے؛ تو مجھے دس بار دیکھتے تھے، جب تک میں سبق سمجھ جانے کی تصدیق نہ کرتا تھا تب تک ایک ہی بات کہتے رہتے تھے، کبھی کبھی تو میں سبق بنا سمجھے ہی "جی” کہ دیتا تھا؛ پھر بعد میں احساس ندامت کے ساتھ پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی تھی صرف یہ سوچ کر کہ کل سبق کے وقت کیا صورت حال ہوگی؟حضرت کا مزاج کیسا رہے گا؟
مولانا منظور صاحب دامت برکاتہم کا وجود مسلمانان راورکیلا کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں؛ اللہ تعالی حضرت کا سایہ ہم پر دراز فرمائے آمین!
طیبہ مسجد پانپوش میں جمعہ کی نماز مولانا شعیب صاحب کی اقتداء میں پڑھی، پھر کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہاں سے بسرا کے لئے نکل گیا، جہاں مولانا شعیب صاحب کے بڑے بھائی مولانا زبیر صاحب شدت سے منتظر تھے،
بسرا راورکیلا سے پندرہ کیلو میٹر فاصلے پر واقع ہے، لوگ بسرا کو وہاں قائم لڑکیوں کے ادارے کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں، کوئی جانے یا نہ جانے میں نے تو بسرا کو وہاں کے ادارے سے ہی جانا ہے!
*حاجی شکیل صاحب*
روارکیلا واطراف میں بلکہ پورے اڑیسہ میں شکیل بھائی سے ہی مشہور ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی کے دادا ہیں تو کسی کے چچا!
شکیل بھائی کسی دینی ادارے سے باضابطہ سند یافتہ عالم نہیں ہیں، البتہ صاحب نسبت ہیں، بزرگوں اور اہل اللہ سے مضبوط مراسم رکھتے ہیں، تبلیغی واصلاحی جہات سے بھی ان کی خدمات باعث رشک ہیں، دینی وعصری ادارے تو ان کی زندگی کے روشن باب ہیں؛ جن میں جامعۃ البنات سر فہرست ہے!
میں تو اللہ کی رحمت پہ پر امید ہوکر یہ کہ سکتاہوں کہ امینیہ ہارون جامعۃ البنات شکیل بھائی کی اخروی نجات کے لئے کافی ہے، انشاء اللہ!
*امینیہ ہارون جامعۃ البنات بسرا*
امینیہ ہارون جامعۃ البنات یہ فقط ادارہ نہیں ہے، بلکہ ہماری نسلوں کے لئے وہ چینی دیوار ہے جو ایمان وعقائد کے تحفظ کے لئے کھڑی کی گئی ہے، جامعۃ البنات بسرا ایک ایسی تحریک ہے، جس کے ذریعہ لڑکیوں کو صالح معاشرہ کی تشکیل کی ٹریننگ دی جاتی ہے، جہاں نسوانی احساسات وجذبات کو اسلامی تعلیمات کی کرنوں سے روشن اور تابناک کیا جاتا ہے، جہاں شریعت کی عطر بیز خوشبوؤں سے آنے والی نسلوں کو پاک وصاف کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے، جہاں عورتوں کے حقوق سے مکمل آشنائی ملتی ہے، جہاں قرآنی اصول کی خوبصورت چادر سے عورتوں کو سکورٹی فراہم کی جاتی ہے، جہاں نسوانی نزاکت کی رعایت کرتے ہوئے شرعی پردے کی شکل میں گھنا اور مضبوط سائباں عطا کیا جاتا ہے!
جامعۃ البنات بسرا کی پر شکوہ عمارتیں کسی بھی اسلام پسند دل کو موہ لینے کے کافی ہیں ، آسمان چھوتی بلند وبالا دیواریں، اپنے ہمیہ جہت وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں؛ پر فریب نظارے، تعلیمی فضائیں، مذہبی تربیت کی ہوائیں، اسلامی تہذیب وثقافت کے جھونکے ہمیں اپنی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں !
جامعہ کی چہار دیواری میں داخلے کے لئے عالیشان ایک دروازہ ہے، داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک انگلش میڈیم اسکول بنام ایچ اے انگلش اسکول ہے، جہاں نرسری سے گیارہویں تک سی بی ایس سی نصاب کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، جس کے بانی بھی شکیل بھائی ہیں، اسکول کے تھوڑے فاصلے پر ایک مدرسہ بنام جامعہ تحفیظ القرآن قائم ہے، جس کے قائم کردہ اور کرتا دھرتا شکیل بھائی ہی ہیں؛ جہاں ایک سو سے زائد طلباء تعلیمات نبوی سے آراستہ ہورہے ہیں؛ اسی باؤنڈری کے اندر، دائیں جانب امینیہ ہارون جامعہ البنات قائم ہے، جسے شکیل بھائی اور ان کی پوری ٹیم نے خون پسینے سے سینچ کر پھل دار درخت کی شکل عطا کی ہے!
شکیل بھائی اور مولانا زبیر صاحب نے مجھ سے کہا کہ جامعۃ البنات کے اندر جانے کی اجازت کسی کو بھی، کیسے بھی اور کسی وقت بھی نہیں دی جاتی ، مگر آپ ہمارے خاص اور محترم ہیں اس لئے آپ کو صرف ایک نظر دکھانے کی غرض سے لئے چلتے ہیں!
اندر کا نظارہ دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہوگئیں، اتنی عالیشان عمارتیں ، اور اتنا پر سکون ماحول میں نے کسی بھی لڑکیوں کے ادارے میں نہیں دیکھا- ایک بھی طالبہ باہر نہیں تھی، صرف طالبات کے پڑھنے کی اجتماعی آوازیں آرہی تھیں!
ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں قرآن وحدیث، فقہ وفتاوی، ادب وبلاغت کی تعلیم نہایت ہی صاف وشفاف ماحول میں دی جاتی ہے، شعبہائے دینیات سے لے کر عربی وفارسی کے تمام شعبے قائم ہیں!
عموما جامعہ میں چھ سو طالبات زیر تعلیم ہوتی ہیں، مگر کوڈ پابندیوں کے سبب طالبات کی تعداد کم ہوگئی تھی؛ اب دوبارہ وہی تعلیمی رونق بحال ہونے والی ہے انشاء اللہ!
میں اس شکیل بھائی کو سلام پیش کرتا ہوں جو اسلامی، اصلاحی اور تعلیمی میدان کے مرد مجاہد ہیں، جن کا یہ تعلیمی کارنامہ نہ صرف ریاست اڑیشہ بلکہ پورے ملک کے لئے مثال ہے؛
اخیر میں دعا گو بھی ہوں کہ اللہ تعالی ان کے تمام دینی وعصری کاوشوں کو قبولیت سے سرفراز فرمائے اور اداروں کو ہمیشہ سبز وشاداب رکھے. آمین
Comments are closed.