دن بہ دن بگڑتے حالات اور علماء کی خاموشی لمحہ فکر!

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
علمائے دین سے ہاتھ جوڑ کر ہماری مودبانہ گزارش ہے
ْآگے بڑھ کر اس لُٹی پٹی پریشان حال اُمت کو سنبھال لیں ،اس لاوارث امت پر ترس کھائیں اور اس فتنوں بھرے دور میں ان کی صحیح رہنمائی فرمائیں ۔۔۔۔
ورنہ صاف صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیں کہ آپ کی پہنچ محض اپنی اپنی مساجد، خانخاہوں اور مدرسوں تک سمٹ چکی ہے، آپ کا امت کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بھلے آپ کی بہن بیٹیاں کفار کی چوکھٹوں پر ہر دن ذلیل و خوار ہوتی رہیں، آپ اپنی خانخاہوں اور مسجدوں سے باہر ہرگز نہیں نکلیں گے، نہ ہی آپ دشمن کے آگے ڈٹ کر حق بات کہنے کی جراءت کریں گے ۔۔۔
ممکن ہے آپ کسی سے خوفزدہ ہیں یا آپ کسی کے حکم کے محتاج ہیں لیکن ْالحمدللہ یہ اُمت اللہ سبحان تعالی کے سوا نہ کبھی کسی کی محتاج تھی نہ ہی یہ کسی دشمن سے خوفزدہ ہے
ان شاءاللہ آپ کے ایک اعلان کے بعد اُمت خودمختار بن کر اپنا راستہ خود تلاش کرلے گی ، چاہے وہ حجاب نکالنا ہو یا پہننا ہو آپ کے بھروسے تو ہرگز نہیں رہے گی ۔۔۔۔۔۔
پھر قسم ہے آپ کو ، جو آپ میں سے کبھی کسی عالم یا معلمہ نے کسی ممبر و محراب یا جلسوں میں بیٹھ کر، کھڑے ہوکر یا کسی بھی انداز میں پردے کی عصمت، پردے کی افادیت اور پردے کی شان پر لمبی چوڑی تقاریر یا بیان بازی کی تو ۔۔۔۔۔۔
یہ اُمت کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گی، نہ ہی اللہ سبحان تعالی آپ کو معاف فرمائیں گے۔
کیونکہ آج آپ بزدل، دنیا پرست ہوچکے ہین، اپنے بزرگان دین کے کردار کو آپ نے بھُلا دیا ہے ، آپ نے بھلادیا ہے جنگ بدر اور جنگ خندق کے اُن ایمانی واقعات کو ، آپ بھول چکے ہیں نبیوں کے اُن حالات کو ، آج آپ کو یاد نہیں ہیں وہ مناظر جہاں کئی کئی دنوں کے فاقوں کے باوجود پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمنان اسلام کو دھول چٹائی گئی تھی، فتح کے پرچم لہرائے گئے تھے ۔
کیا واقعی میں آپ کو یاد نہیں کہ کیسے تین سو تیرا جانبازوں نے ہزاروں کا مقابلہ کیا تھا ؟
وہ بھی بغیر کسی وسائل کے محض اللہ سبحان تعالی پہ یقین ، اور دینی جذبہ کے ساتھ ، آپ اُن جانباز مرد مجاہدوں کے وارث ہوکر کیسے یہ سب بھول گئے ؟؟؟
آخر آپ کس منہ سے اسباب و وسائل کی کمی کا رونا روسکتے ہیں ؟؟؟
جبکہ آپ کی عالشان عمارتیں ، اے سی لگے کمرے ، گاڑیاں اور عیش و زیبائش بھری آپ کی زندگیاں، آپ کے سجے سجائے دسترخوان خود گواہ ہیں کہ آپ کی زندگیوں میں کیا چل رہا ہے ۔
ہاں گواہ ہیں نمازیوں سے خالی جھومر لگی عالشان مساجد و مدارس جسے مسلکوں ، فرقہ بندی کی آڑ میں ویران کردیا گیا ہے اور گواہ ہیں آپ کے وہ جلسے جو امت کے چندوں پر سجتے ہیں ، پھر آپ کس بات کا رونا روتے ہیں ؟؟؟
امت کے پاس،جتنا سرمایہ تھا سب کچھ تو آپ ہی پر لٹادیا، ایک مزدور طبقے سے لے کر امت کے کروڑ پٹی تاجر نے بھی چندوں سے آپ کا دامن بھردیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور آج جب بچیوں کے مستقبل کے لئے کچھ کرنے کی بات آئی تو آپ اپنا پلہ جھاڑتے ہوئے خود کے ساتھ پوری قوم کو بےبس، لاچار بتارہے ہیں۔۔۔۔۔
اور اس وقت حجاب معاملے پر آپ اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بار بار اُس حدیث کو پیش کررہے ہیں جس میں مجبوری کے تحت حرام بھی حلال بن جاتا ہے ،
اللہ نہ کریں کل کو آپ کے اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا برقعہ سرعام عام سڑکوں چوراہوں پر اُتروایا جائے، یا جبرا مسلم بچیوں کو غیرمسلم لڑکوں سے شادی کرنے پہ مجبور کیا جائے تو کیا اُس وقت بھی آپ کی زبانوں پر یہی حدیث یہی دلیل رہے گی؟؟؟
اللہ کے پاکیزہ کلام محفوظ ہیں آپ کے سینوں میں،
جی ہاں اللہ کے پاکیزہ کلام محفوظ ہیں آپ کے سینوں میں خدارا ایک بار اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیجئیے کیا واقعی میں آج آپ اس قدر بےبس و لاچار ہیں ؟ اور کیا آپ کی یہ بےحسی امت کے حق میں صحیح ہے ؟؟؟
جو آپ اپنی کمسن بچیوں کے حق میں بول نہیں پارہے ؟؟؟
یہ امت ایک مدت سے آپ کی زبانوں سے محض تقاریر سُن سُن کر تھک چکی ہے، اب اللہ اور اللہ کے رسول کے نام پر آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بھی مگرمچھ کے آنسو لگتے ہیں، کیونکہ یہ وقت قول کے ساتھ عمل کا ہے لیکن جہاں پر قول و عمل میں ہی اس قدر تصادم ہو وہان سے کسی بھی قسم کی اچھائی کی اُمید کرنا خود کو فریب دینے کے برابر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی جب آپ اپنی زبان کی لاج نہیں رکھ پارہے ہیں ،اللہ کے پاکیزہ کلام کا لحاظ بھلاچکے ہیں، شریعت کو اپنے فائدے اپنی آسانی اور اپنی بزدلی کو چھپانے کے لئے استعمال کررہے ہیں تو آپ کا کوئی حق نہیں بنتا کہ آپ خود کو قوم کا رہبر، رہنما مسیحا اور نبیوں کے وارث کہیں ۔۔۔۔۔۔
اب بس انتظار کریں اُس دن کا جب روزمحشر اُمت کے ہاتھ اور آپ کے گریباں ہوں گے ۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.