دوسروں کی صلاحیت کو قبول کرنا نبوی صفت

محمد صابر حسین ندوی
صلاحیتیں متفرق ہوتی ہیں، دنیا میں موجود سارے انسانوں میں مختلف صلاحیت، طبیعت اور مزاج ودیعت کی گئی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اگر کسی سے ایک معاملہ میں اتفاق رکھتا ہے تو وہ دوسرے معاملے میں بھی اتفاق کرتا ہو، انسانوں کے چہرے اور ان کی فعالیت، کردار اور سوچ وفکر کا طریقہ سب کچھ الگ ہوتا ہے، جس طرح ایک انسان کی شکل و شباہت، انگلیوں کی نشانیاں، آنکھوں کی پتلیاں اور ماتھے کی لکیریں، ہاتھوں کی علامات الگ الگ ہوتی ہیں اسی طرح انسان کا دماغ بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے، اس جہاں میں دو یا اس سے زائد لوگ ہوں اور وہ دماغ کا استعمال کرتے ہوں تو یقیناً اختلاف پایا جائے گا، آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک ہی موضوع پر متعدد مصنف و مؤلف کتابیں لکھتے ہیں، ان میں موجود باتیں اور مباحث بھی تقریباً ایک ہوتی ہیں؛ لیکن اس کے باوجود ان کی کتابوں میں بے حد فرق ہوتا ہے، صرف ترتیب ہی نہیں بلکہ استدلال اور اسنبطاط میں زمین آسمان کا امتیاز پا جاتا ہے، اس سلسلہ میں صحاح ستہ، اور فقہاء کا فقہی اختلافات کا پورا سرمایہ دیکھا جاسکتا ہے، انسانوں کی اسی نیرنگ صلاحیت کی بنا پر یہ لازمی بن جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو قبول کریں، ایک دوسرے کی صلاحیت سے استفادہ کریں، جب انسانی صلاحیتوں کو باہم ہم آہنگ کیا جاتا ہے، بلا کسی تعصب اور تشدد کے ان سے استفادہ کیا جاتا ہے تو پھر معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے، ایک دوسرے کی ضرورت مکمل ہوتی ہے.
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دوسرے کی صلاحیت سے استفادہ اور انہیں قبول کرلینا بڑے جگرے کی بات ہے، عام طور پر ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والے حسد وجلن اور نفرت و رنجش کی دکان سجائے رکھتے ہیں، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان میں اتفاق و اتحاد پایا جائے، اگر کہیں ہم آہنگی پائی گئی تو یقیناً ایسے شعبوں میں ترقی ہوتی ہے، ایک دوسرے کی صلاحیت مل کر ذمہ داریاں تکمیل پاتی ہیں، یہ سمجھنے کی بات ہے کہ انسان کوئی خدا نہیں بلکہ وہ کمزور مخلوق ہے، اس میں محدود صلاحیت اور فکر ہوتی ہے، اگر وہ سوچتا ہے کہ سارے معاملے محض وہ اپنی فکر اور کاوش کی بنا پر ہی انجام دے لے گا تو وہ صرف گڑھے میں گرتا ہے، یہ غلط فہمی بہت سے شعبے اور معاشرتی معاملے میں خلل ڈالتے ہیں، دقت یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ انہیں دوسروں کی صلاحیت بھی درکار ہے، بعض اوقات وہ سرے سے انکار و رد سے کام لیتے ہوئے تضحیک و استہزاء کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں کامل و مکمل ہیں؛ حالانکہ دوسروں کی صلاحیت کو قبول کرنا اور وسعت قلبی کا اظہار کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کے اعلی اخلاق میں سے ہے، حضرت موسی علیہ السلام کو کون نہیں جانتا، جب فرعون کا ظلم بڑھا اور زیادتی بہت زیادہ عام ہوگئی تو اللہ تعالی نے انہیں نبی بنا کر اس کی طرف دعوت الی اللہ کیلئے بھیجا، مگر ان کی زبان میں لکنت تھی، وہ بیان و ادائیگی میں مہارت نہیں رکھتے تھے، یہاں انہیں اپنے چچیرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی یاد آئی، انہوں نے کھلے طور پر اقرار کیا کہ ہارون ان سے زیادہ فصیح و بلیغ ہیں اور اللہ تعالی سے سفارش کی کہ اس مشن میں ان کی معیت حاصل ہوجائے، قرآن کریم کا یہ بیان پڑھیے! وَ اَخِیْ ہٰرُوْنُ ہُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ ۫ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ – – "اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے ؛ لہٰذا میری مدد کے لئے ان کو بھی رسول بنادیجئے ، جو میری تصدیق کیا کریں گے ؛ کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے”. (قصص:٣٤)
7987972043
Comments are closed.