کھرگور کے مسلمانوں پر بُلڈوزر کا قہر اور نظریں چُراتی مسلم قیادت !

احساس نایاب ( شیموگہ ، کرناٹک )
بھارت کے مسلمانوں کو بالخصوص ملی و سیاسی قائدین کو
ماہ رمضان کی تیرویں سحری کا تیرہواں روزہ بہت مبارک ، ساتھ میں افطار کے سموسے ، سیخ کباب ، ٹھنڈے شربت اور لزیز لوازمات سے سجا دسترخوان بھی مبارک ۔۔۔۔۔
آج سے چند روز قبل مدھیہ پردیش کھرگون کے مسلمانوں نے بھی بیشک روزہ رکھا ہوگا، وہ بھی سحری افطاری اور عبادتوں میں مصروف رہے ہوں گے ، دوسالہ پنڈیمک کے بعد عید کو لے کر جو ایکسائٹمنٹ ہونی چاہئے بیشک اُن میں بھی رہی ہوگی
لیکن کس کو پتہ تھا کہ چند لمحوں میں آنکھوں کے آگے سارا منظر بدل جائے گا اور ان معصوم روزہ داروں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔۔۔۔۔
جی ہاں وہ 10 اپریل اتوار کا دن تھا ، جس دن رام کی پیدائش تھی، جس رام راجیہ کے دعوے بی جے پی آر ایس ایس گیارہ سالوں سے کررہی ہے ۔۔۔۔
مگر اُسی رام کے نام پر سب کچھ تباہ کردیا گیا، ایک خونی بھیڑ نے جئے شری رام کے نعرون کے ساتھ رام کے نام کو بدنام کردیا ۔۔۔۔۔
دس اپریل کو جب ملک بھر کی طرح مدھیہ پردیش کے 43 ہزار مسلم آبادی والے کھرگون میں بھی رام نومی کا جلوس نکالا جاتا ہے
جس میں ہزاروں کی تعداد میں بھگوا دھاری شامل رہے، جو جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ ، ڈی جے کی ناقابلِ برداشت دُھن پر رخص کرتے ہوئے ، جئے شری رام اور پاکستان جاؤ جیسے نعرے لگارہے تھے، وہیں دوسری جانب معصوم روزہ دار مسلمان اپنی عبادتون میں مصروف تھے
کہ اچانک رام کا نام لینے والے رام کی جئے جئے کار کرنے والے راون بن کر روزہ داروں پر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور شیطانیت کا ایسا ننگا ناچ کھیلا جاتا ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔
جب رام نومی جلوس تالاب چوک علاقے سے شروع ہوا تو اُسی دن تشدد زدہ علاقے سے چالیس کلومیٹر دور بی جے ہی لیڈر کپل مشرا نے بھیڑ سے مخاطب ہوکر اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی،
جس مین کپل مشرا گھروں میں گھُس کر مارنے کی دھمکی دیتا نظر آرہا ہے اس کے علاوہ وہان موجود بھگوا ہجوم کو کشمر فائلس فلم کے بارے میں بتاکر مسلمانوں کے خلاف اکسا رہا ہے ۔۔۔۔ لیکن افسوس اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی جاتی جبکہ دہلی سے لے کر کھرگور تک تشدد کی آگ بھڑکانے والوں میں پہلا نام کپل مشرا کا ہے ۔۔۔۔۔
خیر آگے جلوس جب تالاب چوک مسجد کے پاس پہنچتا ہے تو ہندو سنگھٹن کے کاریاکرتاؤں نے مزید زور و شور سے نفرت انگیز نعرے بلند کردئے، مسجد کے آگے ڈی جے کی آواز مزید بڑھادی گئی، مسلمانوں کو بھڑکانے کی ہرممکن کوشش کی گئی، مسجد کی توہین کرتے ہوئے پتھربازی بھی ہوئی، جس سے مسجد کو بھی نقصان پہنچا ، جب مسلمانوں نے انہیں سمجھاتے ہوئے روکنے کی کوشش کی تو ان دنگائیوں نے مسلمانوں پر ہی حملہ کردیا ، مسلم گھروں پر پتھر برسائے گئے، گھروں دکانوں کو لوٹا گیا ، گاڑیوں کو نزرآتش کیا گیا ، عورتوں بچوں کے ساتھ مار ہیٹ بدسلوکی بھی کی گئی،۔۔۔۔۔
ایک رپورٹ کے مطابق کھرگون ہی میں ایک اور مسجد ہے جس کا نام بلال مسجد ہے اس کا تالا توڑ کر پولس وہاں جبرا گھُس گئی،اور اُس مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا، اس دوران وہاں موجود ایک بزرگ خاتون نے مذمت کی تو ان ظالموں نے اُن کے ہاتھ پر تلوار سے حملہ کردیا
۔۔۔۔۔ اور ہمیشہ کی طرح پولس یہان پر بھی ایک طرفہ کاروائی کرتی رہی ۔۔۔۔
پہلے تو حالات پر قابو پانے کے لئے پولس نےآنسو گیس کے گولے داغے، لیکن ہندو دنگائیون کو روکنے میں پولس جب پوری طرح سے ناکام ثابت ہوئی تو درجنوں بےقسور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ، اس دوران ایسی کئی ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جس میں خود پولس ہی مسلم نوجوانوں کو بےرحمی سے جانوروں کی طرح پیٹ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔
اور جب اس سے بھی ان کا جی نہ بھرا تو غریب مسلم گھروں، دکانوں پر بُلڈوزر چلائے گئے ۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ہی دنگائیوں کے ہاتھوں لُٹ کر تباہ ہوچکے مسلمانوں پر اب ایک اور قہر توڑا گیا ۔۔۔۔۔۔
بغیر کسی اطلاع ، بغیر نوٹس کے درجنوں مسلم گھروں دکانوں کو آنا فانا میں زمین بوس کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔
جس گھر کو بنانے میں زندگیان گزرجاتی ہیں
آج اُن گھرون کو پلک جھپکتے نظروں کے آگے مسمار کردیا گیا ہے
اور بیچارے روزہ دار مسلمان خون کے آنسو پی کر رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیچارے آخر لڑتے شکایتیں کرتے بھی تو کس سے ؟
ایم پی کے وزیرداخلہ کا فرمان تو پہلے ہی آچکا تھا
نروتم مشرا نے کھرگون میں ہوئے تشدد کا الزام سیدھے سیدھے مسلمانوں پر لگاتے ہوئے بیان دیا تھا کہ جنہونے پتھر چلائے ہیں ان کے گھروں کو پتھر بنادیا جائے گا، پھر کیا تھا بلا کسی تاخیر کے ہنستے کھل کھلاتے ان آشیانوں کو پتھر کا ڈھیر بنادیا گیا ۔۔۔۔۔ باقی خاکی ہولس بھی اُنہی کی، سرکار بھی اُنہی کی اور عدالتیں بھی اُنہیں کے اب اس ظلم کے خلاف بولے گا بھی تو کون ، انصاف دلائے گا بھی تو کون ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
مسلم رہنماؤں کے منہ میں تو اب زبانیں رہی نہیں
ایک آدھ مذمتی بیان جاری کرکے کئیوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرلیں، اپنا اپنا دامن چھڑا کیا، اور کئیوں نے سرکار کے نام محض خطوط لکھ کر ہی جیسے فتح حاصل کرلی ہو ، جس سے شاید بےسہارا مسلمانوں کو انصاف بھی مل گیا ہو ، اُن کے زخمون پہ مرہم بھی لگ گیا ہو اور اُن کے نقصان کی شاید بھرپائی بھی ہوچکی ہوگی ۔۔۔۔۔۔
بہرحال ایک بار پھر ہم اپنی بات دہرارہے ہیں ماہ رمضان ہے صبر ، برداشت اور عبادتوں کا مہینہ، سو صبر کریں اور اپنے نام نہاد سوکالڈ قائدین سے ہرگز بدظن نہ ہوں ۔۔۔۔
ویسے بھی ان ملی و سیاسی قائدین کو اے سی میں بیٹھ کر بھی قوم کی بہت فکر ہے
تبھی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
قوم کے غم میں ڈننر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
رہی بات کھرگون کے بےسہارا ، بےسروسامان مسلمانوں کی تو اس سال ماہ مبارک میں خون کے آنسو پیتے ہوئے ان کی سحری اور افطاری تو ہو ہی رہی ہوگی۔۔۔۔۔
آپ رہنمائے قوم ، قائدین ملت اور مفکران کو آپ کی چمکدار حویلیاں مبارک ہوں اور ان غیریبوں کو ان کی ٹوٹی ہوئی جھُگیاں ۔۔۔۔۔
آخر میں چند مسلمانوں کی اپنے رہنماؤں سے ایک معصوم سی شکایت ہے کہ انہونے اس مشکل اذیت ناک وقت میں کھرگون کے مسلمانوں کو بےسہارا ، بےیارومددگار ، لاوارث بنا کر چھوڑ دیا ہے اور کسی نے بھی ان سے ملاقات کرنے ، انہیں تسلی دلاسہ دینے کی زحمت تک نہیں کی ہے ۔۔۔۔
ہم اپنے ان بھولے بھائی بہنوں سے بس اتنا کہیں گے ۔۔۔۔۔ کہ
ذرا سا صبر کیجئیے گا
اس کے لئے ابھی وقت پڑا ہے
ابھی ابھی تو آگ لگی ہے
ابھی تو راکھ بننی ہے
ذرا سا انتظار کیجئیے گا
کہ ابھی تو سب کچھ دھوان ہونا باقی ہے
پھر یہ بھی بلوں سے نکلیں گے
لے کر مفلسوں کے نام کی جھولیاں
پھر ہوگی ڈنگوں کے نام پر چندے اور زکوۃ کی وصولیاں
شاید تب جاکر مل جائے ان بیچاروں کو ہر درد کی قیمت۔۔۔۔۔۔
اُس وقت تک صبر کریں، اور رب کے آگے رو کے فریاد کریں کہ اُس کے علاوہ اب اس امت کا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.