بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ( قسط1)

 

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی
مدرس:جامعہ اصحابِ صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور،ایم پی۔

یہاں تمام کتابوں پر تبصرہ مقصودنہیں ہے۔ بلکہ دوران تدریس جن کتابوں میں ذاتی طورپرکچھ مفید یا مضرباتیں محسوس ہوئیں یہاں انہیں کے بارے میں اپنے احساسات کو ضبط کررہاہوں ۔

*اُردوکتب*

*اُردوزبان کی پہلی وغیرہ*

اُردوزبان کی پہلی کتاب، دوسری کتاب، تیسری کتاب، چوتھی کتاب ،پانچویں کتاب۔
مصنف: مولانااسماعیل خاں صاحب میرٹھیؒ ( ولادت1844ء وفات1917ء)
تسہیل : ابوبکربن مصطفے پٹنی، شائع کردہ: ادارہ صدیق؛ ڈھابیل، گجرات۔
یہ کتاب برٹش دور میں لکھی گئی ہے ، کتاب میں زبان کی تعلیم کے جدید اصول وضوابط کی پابندی کی گئی ہے، اس کتاب میں سوسال قبل ان ضوابط کا اہتمام نظرآتا ہے جو اِس وقت جدید اصول مانے جاتے ہیں ۔مصنف کتاب کی پیدائش اور وفات کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کم ازکم سو سال قبل لکھی گئی ہے۔ یعنی ایک صدی گزرجانے کے باوجود اس کتاب کی تعلیمی افادیت علی حالہ باقی ہے۔ عرصہ دراز سے اس کتاب کی اشاعت اور اردو تعلیم گاہوں کے نصاب میں اس کی شمولیت کے پیچھے نہ کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی مقدس ہستی ،لیکن تعلیمی محاسن، خصائص،افادیت وتنوع کی وجہ سے یہ کتاب آج بھی بے شماردرسگاہوں میں داخل نصاب ہے۔
بعض عمر دراز افراد جنہوں نے سنسکرت اور انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کی، اردو زبان دانی کے لیے جب انھوں نے مجھ سے رہنمائی طلب کی تو میں نے انھیں اسی کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔
اس کتاب میں جس عمدہ واحسن طریقے پر تدریج کے ساتھ حروف کی شناخت کرائی گئی وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔ یہی نہیں ہرسبق کے آخر میں کچھ الفاظ جلی قلم سے لکھے گئے، جن کی تہجی اور معنی یاد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔جو اُردویکیبلری(Vocabulary) میں اضافہ کے ساتھ اُردو زبان میں مہارت اورکمال کاذریعہ ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب اُردو کی تدریس میں کافی مفید ہے۔
لیکن یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ: اس کتاب میں جہاں اسلامی تصورات اوردینی تہذیب وتمدن کو پیش کیا گیا ہے وہیں وسعت ظرفی اورلبرل ازم (Liberalism)کے ساتھ دیومالائی کہانیوں پر حقیقت کی ملع سازی کی گئی ہے۔مثلاً گائے کے فوائد بیان ہوئے، جب کہ بکری اور بھینس کے بھی فوائد بیان کئے جاسکتے تھے۔ اسی طرح سیتا کی’’ اگنی پرکشا‘‘ جیسے دیوما لائی کہانی کواس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ حقیقی واقعہ کی صورت میں بچوں کے ذہن میں نقش ہوسکتا ہے۔ کسی حصے میں مہاراجہ بکرماجیت کی انصاف پسندی کا بھی ذکر آیا ہے ۔ جب کہ مہاراجہ بکرماجیت کے دور میں مہابھارت جیسے رزمیہ شاعری کو فروغ حاصل ہوا،جس میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے ملک کے اصل باشندوں کی ذلت ناک شکست کو بیان کیا گیاہے۔ اسی طرح مہاراجہ بکرماجیت کے بھائی ’’کالیداس ‘‘ نے اپنی ادبی کاوشات کو جس طرح ا لفاظ کاپیرہن عطاکیا ہے اس میں شہوت رانی، ہوس پرستی اورعیش پوستی کا ہرسامان دیکھنے کو ملتا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہے کہ عدل وانصاف کاخون کرنے والی ’’ منو اسمرتی‘‘ جیسی کتاب کے آ خری ابواب اُجین میں لکھے گئے۔ کتاب کے کسی حصہ میں ملکہ وکٹوریہ کی حکومت کے استمرار ودوام کے لیے دعائیہ نظم بھی شامل ہے۔
اس طر ح اس کتاب کے بعض اسباق انسانوں پر جانورں کی فوقیت کے تصورات کو تقویت فراہم کرنے اورفرضی اورجھوٹی کہانیوں کوصداقت کا جامہ پہنانے کے ساتھ ہی ظلم وزیادتی اور ناانصافی کے طرح ڈالنے والوں کوامن و انصاف کا نمائندہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
گجرات سفرکے دوران رتن پور کے مدرسہ سے اس کتاب کے دوتین سیٹ میں خرید لا یا تھا۔ جسے میں نے اپنے بچوں کو پڑھایا۔
ابتداء میں کتاب کی تسہیل اور مرکز اشاعت کو لکھاجاچکا ہے۔ کتاب غالباً سترنمبر کے عمدہ سفیدکاغذ پرشائع ہو ئی ہے ۔نوری نستعلیق کی خوبصورت کتابت کے ساتھ مشکل الفاظ کو سرخ رنگ میں ظاہر کیاگیا، اور پھرحاشیہ میں ان کے معانی بھی لکھنے کا اہتمام ہوا ہے۔ ابتدائے کتاب میں حضرت مولاناخلیل امینی علیہ الرحمہ کی کسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے اردواملاء نویسی کے قواعدبھی درج کیے گئے ہیں ۔جس سے کتاب کی افادیت وجاذبیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
کتاب کی اس طرح عمدہ کتابت وتزئین کاری وغیرہ دیکھ کرمجھے حضرت حکیم اخترصاحب کے کلام کا ایک مجموعہ یاد آ گیا۔ جسے ریاض العلوم گورینی (جونپور،یوپی) کے کتب خانہ میں1994ء میں میں نے اُس وقت دیکھا تھا جب میں وہاں درجات عالمیت کا ایک طالب علم تھا۔ وہ کتاب دبیز اوراق پرکئی رنگوں میں انتہائی درجہ خوبصورت شکل میں تھی۔ اسے دیکھ کرمیرے دل میں خیال آ یا کہ ہمارے کسی بزرگ کے کلام کو قرآن کریم کے نسخوں سے بھی زیادہ خوبصورت اورقیمتی اوراق میں طبع کرنا مناسب نہیں ہے۔ میرے ایک رفیق (مولانا) محمد طارق(بھولے پوری ، ضلع اکبر پور[امبیڈ کر نگر]، یوپی) جو کہ شاعر بھی ہیں انھوں نے اسی وقت کہہ دیا کہ:کیسی نادانی کی بات ہے کہ قرآن کریم کے نسخوں پر بزرگوں کے کلام کوفوقیت دی جارہی ہے۔ بعد میں جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو اگر چہ میرا داخلہ اندر (قدیم) دارالعلوم میں تھا( میرا داخلہ دونوں جگہ ہواتھا،اُس وقت دارالعلوم وقف شہر سے باہرواقع تھا، اس لیے میں نے دارالعلوم قدیم میں اپنا داخلہ باقی رکھا)لیکن کبھی کبھی برکت کے لیے دارالعلوم( وقف)میں مولانا انظر شاہ کشمیری ؒاور دیگر اساتذہ کے اسباق میں آ کربیٹھ جاتا تھا۔ایک باراسی مجموعۂ کلام کا تذکرہ کرتے مولانا انظرشاہ کشمیری علیہ الرحمہ نے فرمایا:
’’ میر ے سامنے حکیم اخترصاحب کا مجموعۂ کلام پیش کیاگیا، اسے دیکھ کرخدا کی قسم مجھے خیال ہوا کہ شایدیہ قرآن مجید کا کو ئی نسخہ ہے، لیکن اسے شائع کرنے والے کاخدابیڑہ غرق کرے ،قرآن کریم پربزرگوں کے کلام کوترجیح دی گئی۔اس قدرصرفہ کے ساتھ اگر شائع کرنا تھا توقرآن مجید شائع کرنا چاہئے۔‘‘
پہلی بار اس نسخہ کو دیکھ کر میرے ذہن میں ناشر سے متعلق جو تاثرقا ئم ہوا اورحضرت مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ نے ناشر کے بارے میں جوسخت جملہ ارشاد فرمایا؛ ادارہ صدیق ڈھابیل کی طرف سے مولانا اسماعیل صاحبؒ کی کتاب کی اس قدر خوبصورت اشاعت پر اتنا سخت رد عمل تو میری طبیعت میں نہیں ہے ،البتہ خیال آ تا ہے کہ جو کتاب لبرل ازم اورجمہوریت کے سا تھ ویدک تصورات کو بھی شامل ہو اس کتاب کے بجائے اُردو زبان سکھانے کے لیے ’’ شاہنامہ اسلام‘‘ پر اتنی محنت کی گئی ہوتی تو زبان کے ساتھ اسلام کے عروج واقبال کی تاریخ سے بھی ہمارے بچے روآشنا ہو تے۔
اور آخر خالص اُردوجس پر اس قدر روپیہ صرف کیا جارہاہے اُسے سیکھنے کا کیا فائدہ ہے؟ کئی سالوں تک درجات عالمیت کے لیے اُردو میں وقت ضائع کرنے کے بعد بھی گجرات کے اکثر طلباء اُردو تکلم میں مسلسل غلطیاں کرتے ہیں۔ پھر ایسی مردہ زبان پر وقت اور روپیہ ضائع کرنا غیردانشمندی ہے۔
میں نے گجرات کے کئی علماء سے سوال کیا کہ:کیا یہاں کوئی ایسا عالم ہے جو علمی انداز میں گجراتی زبان میں تقریر کرسکے یا گجراتی میں لٹیریچر لکھ کریہاں پھیلا سکتے؟اس کا جواب سب سے نفی میں ملا۔اگر اُردو کے بجائے عربی ،گجراتی اور انگریزی میں یہاں محنت کی جائے تو اس کے نتائج کافی اچھے حاصل ہو ں گے۔
جاری۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.