بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ ( قسط2)

پیشکش:(مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ،مکسی،ضلع:شاجاپور، ایم پی۔

ہندوستانی قاعدہ

ہندوستانی قاعدہ:(مولانا محمد یعقوب شاہجہاں پوری، ناظم مجلس تعلیمی دہلی، ناشر:کتب خانہ تعلیمی نیامحلہ دہلی، صفحات48؍ قیمت 15؍روپے)
اس کتاب کے مصنف اورناشر کے نام وغیرہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا کہ ہے اس کی اشاعت کے پیچھے کوئی تعلیمی ادارہ ہے ۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ مصنف تو مرحوم ہو چکے ہیں اورکتاب پر لکھے ہوئے ناشر کاشاید وجودہو۔ پھربھی یہ کتاب بڑی آسانی کے سا تھ بازارمیں دستیاب ہے ۔کتاب خوبصورت نوری نستعلیق کتابت کے ساتھ اکثر اوقات کافی خراب کاغذ پرطبع ہو تی ہے۔ کاغذ کی خرابی کے استثناء کے ساتھ کتاب میں زبان کی تعلیم کے لیے جو تدریج مطلوب ہے وہ کامل طور پر پائی جاتی ہے۔ جیسے کہ ابتداء میں تصاویر کے ساتھ مفردحروف شناسی، پھرغیر مرتب حروف شناسی، پھر کسی ایک شکل میں معمولی تبدلی کے بعد دوسراحرف بن جا نے والے حروف کی مفرد ترتیب ، پھر الگ الگ حرکات کے ساتھ مفردحروف کی تختیاں ، پھرحرکات کے ساتھ دوحرفی مرکب حروف وجملہ شناسی، پھر دو حرفی الفاظ سے مرکب کافی چھوٹے چھوٹے ودلچسپ جملوں کی تختی۔ پھر گذشتہ ترتیب کوجمع کرتے ہوئے مدہ کی تختی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے الفاظ و جملوں کی ترتیب ۔ تدریجی طریقوں کے ساتھ پوری کتا ب شروع سے آخر تک اسلامی روح سے مملوء ہے۔ کتاب میں دلچسپی کاسامان اس قدرہے کہ پڑھتے ہوئے بچے خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی شب وروز پڑھ رہے ہیں ۔ جیسے :

’’دادا جاگے‘‘،’’ نانا نے کشمش دی‘‘،’’ اکبر کی بکری کالی ہے‘‘،’’ آپاکی بات سنو‘‘،’’ا خترنیک لڑکا ہے۔‘‘
اول جملہ پڑھتے وقت میری بچی نے پوچھا کہ ابو میرے تو کئی دادا ہیں (چونکہ میری چھوٹی بچی کی ولادت سے قبل ہی میر ے والدین کا انتقال ہوگیا تھا ، اور میں جن لوگوں کو چاچا، ماموں وغیرہ کہتا ہوں میرے تمام بچے انھیں دادا کہتے ہیں ۔ اس لیے یہ جملہ پڑھتے ہوئے میری بچی کے ذہن میں ایسا سوال پیدا ہوا)۔
"آپا ہنس رہی ہیں ‘‘،’’ آپاکی بات سنو‘‘
اس پر بھی فورا بچوں کا ذہن اپنی بڑی بہنوں کی عطا وبخشش اورمحبت وشفقت کی طرف جا تا ہے۔ اور میرے سامنے میرے بچے اپنی بہن سے اس تعلق سے سوال کرنے لگتے ہیں ۔
’’ نانا نے کشمش دی‘‘
جملہ پڑھ کر میری بچی نے کہا کہ’’ نانا تو پارلے جی اورٹافی لاتے ہیں۔ اس میں کشمس لکھا ہوا ہے۔ اور پھر کچھ دیر بعد اپنے نانا کو فون لگادیا کہ’’ نانا میری کتاب میں آ پ کا نام لکھا ہواہے‘‘۔
ان جملوں کوپڑھتے ہوئے صرف بچے ہی اپنے بچپن سے لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں بلکہ معلم کو اپنا بچپن یادآجاتا ہے،جس سے معلم کا دھیان بھی مکمل طور پر کتاب اورمضون سے مربوط رہتا ہے۔
بچوں کی دلچسپی کے سا تھ اسلامی روح کتاب میں اس طرح بھری گئی ہے کہ بچوں کے دل ودماغ پر اس کا گہراعکس ونقش ضرور بن جاتا ہے۔ مثلاً
’’ رب کاشکر ادا کرو‘‘،برے کام سے بچو‘‘،’’ اے رب تو سب کا مالک ہے۔‘‘ اصغرمسجد گیا‘‘،’’حق بات کہو‘‘،’’ آج عید کاچاند ہو گیا‘‘،’’پانی خدا کی نعمت ہے‘‘۔
یاد کرنے کی غرض سے بچے یہ جملے باربار پڑھتے اوردہراتے ہیں اور قاعدہ ہے اذا کررقرر فی القلب، اس طرح اسلامی جملے بچوں کے دل ودماغ میں اچھی راسخ ہو کر ان کے اذعان وایقان کی تقویت واستحکام اور تازگی وتوانائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔
باتصویرحروف شناسی کے لیے پہلی تختی میں کہیں ذی روح کی کو ئی تصویر نہیں ہے۔
*بکری کدھر گئی؟*
محمدی مسجد، محلہ چھیپا باکھل(مہدپور) کی مسجد کے مرحوم امام کا واقعہ ہے،اُس وقت وہاں موذنی کے فرائض جناب حیدرعلی شاہ(حیدر مولانا)اداکرتے تھے۔ یہ واقعہ خود انھوں نے مجھ سے بیان کیا، اور ان کے علاوہ اس محلہ کے دوسرے دو ایک لوگوں نے بھی بیان کیا ہے کہ:

’’ امام صاحب نے بکریاں پال رکھی تھیں، ایک دن دس گیارہ بجے ان کی ایک بکری غائب ہو گئی، بکری کے غائب ہونے کا علم ہوتے ہی انھوں نے اس کی تلاش شروع کردی، ڈھونڈتے ڈھونڈتے ظہر کا وقت ہوگیا، انھوں نے بیرجالی یا قلعہ محلہ میں ظہر کی نماز اداکرکے پھرقلعہ،اور بیرجالی، توڑی، جمال پورہ وغیرہ علاقے میں مغرب تک وہ اپنی بکری تلاش کرتے رہے۔ لیکن ان کی بکری نہیں ملی۔ تھک ہارکر مغرب میں اپنی مسجد اورمصلی پر نمازمغرب کی امامت کے لیے کھڑے ہوئے،تکبیرتحریمہ کے بعد سورہ فاتحہ کی ایک یا دو آیات تلاوت کرنے کے بعد کچھ دیر خاموش رہے ، اور پھرسورہ فاتحہ کی اگلی آیت تلاوت کرنے کے بجائے بولے:
’بکری گئی توکدھرگئی‘۔
امامت صاحب سے نماز میں یہ جملہ سن کر مؤذن جناب حیدرعلی شاہ(حیدر مولانا) نے کہا:
’ آ پ بکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہوگئے ہو،اس لیے آ پ کا ذہن حاضر نہیں ہے ،ہمیں اجازت دیں کہ ہم سب انفرادی طور پرنمازیں پڑھ لیں! ۔‘
امام صاحب نے جواب دیاکہ:
‘ ہاں واقعی میرا ذہن حاضر نہیں ہے،آپ لوگ اپنے حساب سے نمازیں پڑھ لو‘۔‘‘

اسی کتاب (ہندوستانی قاعدہ)میں یہ جملہ آ تا ہے کہ:
”بکری کدھر گئی“
تومیں خوداوربچے سب کافی ہنستے ہیں کیوں کہ یہ جملہ مذکورہ بالا واقعہ کی یادکوتازہ کرتاہے۔ خاص طورپر’’ چھیپا باکھل‘‘ جہاں یہ مسجد واقع ہے وہاں کے بچوں کو میں یہ واقعہ بتا چکاہوں وہاں کے بچے تو اس جملہ پرلوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.