بعض مکتبی کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ ( قسط3 )

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی
مدرس:جامعہ اصحابِ صفہ، مکسی، ضلع: شاجاپور، ایم پی۔
ہماری کتاب(اُردو)
ہماری کتاب (قاعدہ):مؤلف سیدشوکت علی ، بی ۔ اے۔ایل۔ٹی۔ ناشر:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرزنئی دہلی۔
اس کتاب کے مصنف کی حیات وموت کا معلم راقم الحروف کونہیں ہے ۔ البتہ یہ کتاب چونکہ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ درسیات کی طرف سے شائع ہوتی ہے ، اس لیے اس کتاب کے پیچھے ایک معروف ادارہ کھڑاہے جواس کی مسلسل اشاعت اور استمرار کا باعث ہے۔
یہ کتاب ہندوسانی قاعدہ کی طرح تدریج اور بچوں کی نفسیات کے مطابق دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے۔ کچھ جملے ملاحظہ کریں:
’’ اچھے ابو لڈو لائے، امی نے لڈوبانٹے، امی کا کہنا مانو، امی کے پیروں تلے جنت ہے، جوبچا سچا ہے ، سب کو اچھا لگتا ہے، اللہ سب سے بڑاہے ، سب کچھ اللہ کا ہے۔‘‘
ان چھوٹے چھوٹے جملوں میں جہاں بچے اپنے گھر وخاندان کے فرحت بخش ماحول سے محظوظ ہوتے ہیں وہیں اسلامی معاشرت وعقیدے سے بھی روآشنا ہو تے ہیں ۔
حروف شناشی کے لیے
ابتدائی صفحات پرغیرذی روح کی تین تین تصاو یراوپر لگائی گئی ہیں ، اور پھر نیچے مختلف ترتیب سے ان حروف کی شناخت کرائی گئی ہے۔اس لحاظ سے ہندوستانی قاعدہ کی بہ نسبت یہ کتاب زیادہ بہتر ہے۔ نیز اس کتاب میں اسلامی روح بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پربڑے و معتمد مسلم مفکرین سے جو غلطیاں ہو ئی ہیں ان غلطیوں کی اصلاح بھی اس میں دیکھنے کوملتی ہے ۔ مثلاً علامہ اقبالؒ نے ایک طرف’’ چین وعرب ہمارا ‘‘کا ترانہ لکھ کر اسلام کی آ فاقیت کا اعلان کیا تودوسری طرف ایک اسلامک اسٹیٹ کا تصور پیش کرکے اسلام کو زمین کے ٹکروں میں قید کرنے کا نظریہ بھی پیش کردیا، اسی کے سا تھ ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ جیسی مشہوردعائیہ نظم لکھ کر بچوں کے دل ودماغ میں تعمیری فکر پیدا کرنے کی کو شش کی ،لیکن اسی نظم کے توسط سے خاک وخشت اور جائے اقامت کے لیے انھوں نے جوتصور پیش فرمایا ہے اس سے زمین پرستی اور موجودہ نیشل ازم(Nationalism) کو تقویت ملتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حضرت مولانا حسین احمدمدنی علیہ الرحمہ نے سیاسی حالات کے پیش نظرمذہب کے بجائے جغرافیائی سرحدوں کے لحاظ سے جب ملک کی آزادی کی بات کی تو اقبال ؒکو اسلام زمین میں قید ہوتانظر آرہاتھا، اس لیے مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خلاف ایک نظم لکھ کر علامہ اقبال ؔ نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ لیکن بعدمیں اسی وسیع جغرافیائی حصے پر مکھی کے سر کے برابر زمین کے ٹکڑے میں اسلام کو قید کرنے کا تصور پیش فرماکر غیرشعوری طور پرسہی ایشاء کے مسلمانوں کو مشرکوں ومنووادیوں کے رحم وکرم پر جینے کے لیے مجبور بنانے کی غلطی بھی کربیٹھے۔
تعلیمی درسگاہوں میں جاری اس دعائیہ نظم کی وہ عبارت’’ہماری کتاب‘‘ میں غائب ہے، جس میں اسلام اور مسلمانوں کی آ فاقیت کی نفی کاشبہ پایا جاتاہے۔
میں نے اپنی کتاب ’’ ایسے اسلاف سے ملتا ہمارا شجرہ‘‘(تاریخ خانقاہ نعیمیہ ، بہرائچ ، یوپی ، انڈیا) میں چار کتابوں پر تبصرہ لکھا تھا ان چاروں میں ا یک کتاب یہ بھی تھی ،چونکہ ہماری وہ فائل کرپٹ ہوگئی ہے ا س لیے وہیں سے یاد داشت کی بنیاد پراس کتاب کے بارے یہا ں مختصراً نقل کررہاہوں :
"حضرت مولانا سید اعزازالحسن نقشبندی بہرائچی علیہ الرحمہ والرضوان (سابق سجادہ نشیں خانقاہ نعیمیہ ، بہرائچ ، یوپی، انڈیا) نے بعض مکاتب (پرا ئمری اسکولس)میں اس کتاب کو داخل نصا ب کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ اس پر میرے برادر بزرگوار حضرت ڈاکٹر بشیر احمد صاحب مظاہری نے حضرت والا سے سوال کرلیا کہ :
’’حضرت آپ تو تصوف کی لائین کے آ دمی ہیں اور یہ کتاب جس مکتبۂ فکر کی طرف سے تیار کی گئی ہے وہاں تصوف کاتقریبا انکار ہے؟ تو تصوف کے خلاف فکر رکھنے والوں کی کتاب کو نصاب میں داخل کرنا کہا ں تک مناسب ہے ؟‘‘
اس پر حضرت نے جواب دیا کہ:
’’ میں لکیر کا فقیر نہیں ہوں ، اس کتاب میں جس قدر بہتر انداز میں اُردوزبان کی تعلیم پائی جاتی ہے دوسری کوئی کتاب اس کے متوازی نہیں ہے ۔ اور اس میں اسلامی روح بھی بدرجہ اتم موجود ہے ، اس لیے نظریاتی اختلاف کے باجود میں اس کتاب کو اپنے مکا تب کا حصہ بنا ئے ہوئے ہوں ۔‘‘
جاری۔۔۔۔
Comments are closed.