بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ( قسط4)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس: جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور، ایم پی۔

تعلیم الاسلام
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کی مشہور کتاب ہے۔ اس کتاب کے پیچھے کوئی ادارہ نہیں ہے جو اس کو نصاب کا لازمی حصہ بنا نے کی ترغیب و تاکیدکرتا ہو، اورمصنف توبہت پہلے دار آخرت کی طرف روانہ ہو گئے ہیں ۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ چونکہ مفتی اعظم ہند تھے ، اس لیے بسا اوقات خیال آ تا ہے کہ انھوں نے بے شمارکتا بیں تصنیف کی ہوں گی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مفتیِ اعظم ہند ہونے کے باوجود انھوں نے صرف یہی ایک کتاب باقاعدہ تصنیف فرمائی ہے ۔ اپنی اس ایک کتاب میں انھوں نے سمندر کو کوزے میں سمونے کاکام کیا ہے ۔ اس کتاب کی اصابت اورجامعیت کے سلسلے میں یہی شہادت کا فی ہے کہ آ پ کوئی بھی سوال کسی دارالا فتاء کے طلباء کے سامنے پیش کریں ، اور ان کے سامنےفقہ وفتاوی کی شامیہ ، بحر، بدائع، مجمع الا نھر ، فتاوی ہندیہ وغیرہ جیسی مصدری کتابیں رکھیں۔ جوابات میں طلباء کے اختلافات کو باہم مذاکرہ ومناظرہ کے بعد علمی دلائل کے ذریعہ جس جواب پر سب کا اتفاق ہوگا وہ تعلیم الاسلام کے جواب کے مطابق ہی ہوگا۔
ہمارے مکاتب ومدارس میں بالعموم عقائد کی تعلیم کا کوئی خاص نظام نہیں ہے ۔ الا ماشاء اللہ۔ جس کی طرف دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے۔
درجات عالمیت میں ترجمہ وتفسیر کےدوران مختلف عقائد کو سرسری طورپربتانے کامعمول ہے۔موقوف علیہ میں عقائد نسفی نام کی ایک کتاب آتی ہے ۔
البتہ ابتدائی طلباء کے لیے تعلیم الاسلام میں کافی بہتر وعمدہ انداز میں ارکان اسلامی کے ساتھ ہی عقائد کا بھی بیان ہے ۔ اسی کے ساتھ بدعات اورخلافِ ِشریعت رسومات کی تردیدبھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کی گئی ہے۔اسی لیے تحفظ ختم نبوت کے ایک ذمہ دار عالم حضرت مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری نے ایک اجلاس میں فرمایا کہ:

’’ کوئی عمارت مسجد کی شکل میں بنی ہو تو وہ اسلام یا مسلمانوں کی عمارت یا مسجد نہ ہوایسا ممکن ہے ۔ اسی طرح کسی کے ہاتھ میں قرآن مجید کا نسخہ ہو تو یہ ممکن ہے کہ وہ حامل قرآن مسلمان نہ ہو ۔ یعنی مسجد کی شکل میں بنی عمارت مسجد ہونے ، کسی کے ہاتھ میں قرآن مجید کی موجودگی اس کے مسلمان ہونے کی علامت نہیں ہے ۔ لیکن اگر کسی بچے کے ہاتھ میں تعلیم الاسلام ہو توسمجھ جاؤ کہ یہ بچہ مسلمان ہے ، مسجد نما جس عمارت میں وہ داخل ہو رہا ہے وہ مسجد یا مسلمانو ں کا مرکز ہے ۔‘‘

ناگوری بچوں کے استثنا ء کے ساتھ میرے پاس پڑھنے والے تمام طلباء وطالبات کاتعلق محبین(اہل بدعت) کی جماعت سے ہے۔تبلیغی جماعت کے بعض رفقاء کو حیرت ہوتی ہے کہ میں شدت پسندمحبین کے یہاں کیسے آ مدورفت کرتاہوں؟ میں اسکولی بچوں کو ابتداء ہی میں تعلیم الاسلام ہندی میں تھمادیتا ہوں، اور جواردو پڑھنے پرقادر ہوجاتے ہیں ، انہیں اردو میں ۔
تعلیم الاسلام میں جب عقائد ورسومات کے مسائل آ تے ہیں تو انھیں خوب اچھی طرح بچوں کو سمجھاتاہوں اور اس قسم کے اکثر مسائل بچوں کو حفظ بھی کراتا ہوں ۔
پہلے حصے میں صرف مردوں کی نماز کا طریقہ بیان ہوا ہے ،اس لیے تعلیم الاسلام کا پہلا حصہ بچیوں کو بالکل نہیں پڑھاتا ہوں ۔بنات کے تین اقامتی مدرسوں میں میں نے دیکھا کہ: بچیوں کو تعلیم الاسلام کا پہلا حفظ کرایا جاتا ہے تو میں نے تینوں جگہ انتظامیہ کومنع کیا۔

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.