بعض مکتبی کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط5)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحابصفہ، مکسی،ضلع:شاجاپور،ایم پی

بہشتی زیور

بہشتی زیور بظاہر خواتین کے مسائل سے متعلق کتاب ہے، اور عام طور پراسی نکتۂ نظر سے اس کتاب سے افادہ واستفادہ کاسلسلہ جاری ہے، لیکن اس کتاب میں بیان ہو نے والے مسائل اس قدر مستند ومعتمد ہیں کہ اس کا مطالعہ بے شمارمصدری کتابوں کی طرف مراجعت سے قاری واہل علم کو بے نیازکرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلے میں میری والدہ کی مثال پیش کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔
میری والدہ جناب چودھری عبدالمنان صاحب موضع سِسوریا ضلع گونڈہ یو پی کی بیٹی تھی، میرے ناناچودھری عبدالمنان صاحبؒ قاری عبد الوہاب صاحبؒ (بانی مدرسہ فرقانیہ، ضلع گونڈہ، یو پی) کے چچیرے بھائی تھے، اسی لیے ہم لوگ قاری عبد الوہاب صاحب کے صاحبزادوں (حضرت مولانا عبد الرب صاحب قاسمیؒ، اورحضرت مولاناعبدالتوابؒ صاحب) کوماموں کہتے اور سمجھتے ہیں اور یہ دونوں لوگ بھی ہم سب بھائیوں وبہنوں کو اپنا بھانجا سمجھتے رہے ہیں ۔ حافظ محمداقبال صاحبؒ(سابق مہتم مدرسہ فرقانیہ،گونڈہ) کے ساتھ قاری عبد الوہاب صاحبؒ کی بہن کی شادی ہوئی تھی ، اس لیے میری والدہ حافظ صاحبؒ کو پھوپھا کہتیں اور ہم لوگ انھیں نانا کہتے تھے ، حافظ صاحبؒ بھی ہم بھائیوں کے ساتھ کافی شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ میرے والد جناب الحاج الحافظ محمد مسلم صاحبؒ(امام وخطیب جمعہ وعیدین، ومہتمم مدرسہ فیض العلوم ،بیض پور،گونڈہ یوپی)حضرت حافظ محمد اقبال صاحبؒ کے شاگرد تھے۔ لیکن ہمارے گھرانے میں خانقاہ نعیمیہ،بہرائچ،یوپی (انڈیا)کے بزرگوں کے فیوض واثرات تھے، اسی کے ساتھ کچھ باتیں خلافِ سنت بھی تھیں۔محفلِ میلاد اورمروجہ فاتحہ خوانی کا رواج تھا۔
جب میری والدہ کی شادی ہوئی اور میرے گھرمیں آئیں تو بڑی شدت کے ساتھ خلاف سنت رسومات کے خلاف رد عمل ظاہر کرنے لگیں۔ لیکن میرے دادا امام محمد رضاؒ(سابق امام وخطیب جمعہ وعیدین مسجد بیض پور،ومہتمم مدرسہ فیض العلوم بیض پور ،گونڈہ) کی پرہیزگاری اور تقوی وطہارت کی وجہ ان کے احترام میں کچھ مداہنت اختیار کرنے پر مجبو ہو گئیں۔ البتہ گھر اور گاؤں کی صورت حال بدلنے کا انھوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ کسی طرح گاؤں کے بچے ابتدائی تعلیم کے بعد فرقانیہ گونڈہ یا نورالعلوم بہرائچ میں داخل کیے جائیں ۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا، اورکافی تعداد میں صحیح العقیدہ افرادتیارہو گئے۔ فالحمد للہ علی ذالک
بعض مسائل میں میری والدہ انتہائی دو ٹوک انداز میں شرعی حکم بیان کردیتیں۔بسا اوقات مدارس کے بعض نوعمر فیض یافتگان اور ہم جیسے لوگ والدہ سے بحث کر تے تو میری والدہ مزاحاً کہتیں کہ: جہاں سے تم پڑھ کرآئے ہو وہ میرے باپ و بھائی کا قائم کیا ہوامدرسہ ہے، اس لیے تم لوگ مجھ سے آ گے نہیں جا سکتے ہو۔ مجھے بہت تعجب ہوتا کہ میری والدہ ایسے مسائل اتنے وثوق کے ساتھ کیسے بیان کردیتی ہیں؟
میں متعلقہ مسئلوں کو سمجھنے کے لیے شامی، بحر، بدائع وغیرہ مصدری کتابوں کی طرف رجو ع کرتا تو مزید الجھتا چلاجاتا۔مسائل میں اپنی والدہ کی اس قدر اصابت اور وثوق کے بارے میں میں نے اپنی والدہ سے معلوم کیا توبتایا کہ :

’’میں تعلیم الاسلام یا پھر بہشتی زیور سے مسئلہ بتا تی ہوں۔‘‘

اس لیے یہ کتاب صرف خواتین کے بعض مخصوص مسائل کااحاطہ نہیں کرتی ہے بلکہ فقہی نقطۂ نظر سے انتہائی جامع ومستند کتاب ہے ۔ اسی لیے افریقہ اور بعض دیگر ممالک کے دُورِ افتاء کے نصاب میں بھی یہ کتاب داخل ہے۔
میرے مطالعہ میں’’ اختر بہشتی زیور‘‘ رہتی ہے اور میں نے ابھی تک اسی سے طالبات کو پڑھایا ہے۔ لاک ڈاون کے موقع پر کچھ طالبات دوسرے نسخے بھی لے کرحاضر ہوئیں، لیکن ’’اختری بہشتی زیور‘‘ سے ناچیز کوکافی مناسبت ہے کیوں کہ اس کتاب کے حاشیہ میں مصدری کتب کے حوالے کے ساتھ عربی عبارات کے ساتھ مسائل نقل کیے گئےہیں۔
جاری۔۔۔۔

Comments are closed.