بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط7)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور،ایم پی۔

قرآن خوانی کے لیے عربی قواعد

قاعدہ بغدادی

قرآن خوانی کے لیے عربی قواعد میں سب سے پہلے قاعدہ بغدادی کانام آتا ہے ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاصاحب علیہ الرحمہ نے فضائل اعمال یا کسی دوسری تصنیف میں اورحضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے کہیں بغداد کے ذکر میں اس کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ناچیز کے ذہن میں بھی بچپن کے مختلف نقوش کے ساتھ اس کتاب کا نقش کافی مضبوط وگہرا قائم ہے۔یہ قاعدہ کم وبیش آٹھ اوراق پر مشتمل ہے۔ ٹائٹل پر کتاب کانام’’ قاعدہ بغدادی‘‘ اورحضرت جنید بغدادیؒ کے مزار کا گنبد یا روضہ رسول ﷺ یاروضہ رسولﷺاور خانہ کعبہ کی تصویریں بنی ہوتی ہیں ، اورٹائٹل(Title) ہی پراسلام کے ابتدائی تین کلمے بھی لکھے ہوتے ہیں ۔ پھر پہلے صفحہ پر’’ حروف تہجی‘‘ ایک ترتیب کے ساتھ لکھے ہو ئے ہیں ، اور اسی صفحہ میں نیچے نقاط اور اعراب(حرکات) کا نقشہ بھی ہے ۔ اس کے بعد زبر پھر زیر اور پھر پیش کی تختیاں بالترتیب آتی ہیں ، اس کے بعد جو تختی آ تی ہے اس میں تینوں حرکات (زبر ، زیر اور پیش)کو ہر حرف پر لاد (لوڈ کر)دیا گیا ہے، جس سے بچے اعراب کے شناخت میں پریشان ہوجاتے ہیں ، اس کے بعد حرکات تنوین میں زبر ، زیر اور پیش کو بالترتیب پیش کیا گیااور پھر جو تختی آ تی ہے اس میں بھی تمام حروف پر تنوین کی تینوں قسم کی حرکات لاد دی گئیں ہیں ، جس سے بچے کافی کنفیوزن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعدمرکب حروف مع اعراب آ تے ہیں ، جن میں تدریج کی رعایت کے ساتھ ہی کچھ کمزوریاں بھی ہیں ۔
چونکہ یہ قاعدہ بہ پلاسٹک اوراق پرہونے کے علاوہ ہر جگہ باسہولت دستیاب ہوتا ہے ، اس لیے کم سن بچے جو اوراق کی حفاظت کا شعور نہیں رکھتے ہیں ان کے ہاتھ میں یہی قاعدہ مناسب ہے ، اس لیے جب تک مرتب انداز میں مفرد حروف تہجی کی شنا خت نہ کرلیں اس وقت تک چھوٹے بچوں کو یہی قاعدہ لانے کے لیے بولنا چاہئے۔

*یسرن القرآن*
یسر ن القرآن کے دو قسم کے نسخے بازار میں دستیاب ہیں۔ ایک خورد اور دوسرا کلاں۔ خورد میں مفرد حروف اورمختلف قسم کی حرکات کااستعمال اور تمرینات کی کثرت نہیں ہے ، اس لیے قاعدہ بغدادی میں مرتب حروف شناسی اور زبرزیر وپیش کی تختی کے بعد میں’’ یسرن القرآن‘‘کلاں سائز میں منگواتاہوں ۔
یہ قاعدہ عام طور پر54 نمبرکے خراب کا غذ پر طبع ہوتا ہے،غالباً اسی وجہ سے یہ قاعدہ بآسانی دستیاب ہوجاتا ہے ۔ مجموعی لحاظ سے تعلیمِ قرأتِ قرآنِ مجید کے لیے ایک بہتر قاعدہ ہے ۔اس میں تدریج، تمرین، تجوید وغیرہ کی مکمل رعایت کی گئی۔ آخر میں کہیں کہیں کتابت میں بعض حرکات دوسرے حروف پر لگے ہوئے ہیں۔اگر نورانی قاعدہ کی طرح تجوید وتدریس کی اس میں بھی تدریب کا نظام قائم ہو تو اس کو پڑھ کر بھی بچے وبڑے مخارج، غنہ و مدہ کی رعایت کے ساتھ باتجوید قرآن مجید کی تلاوت سیکھ سکتے ہیں۔
میں ابھی تک اسی قاعدہ کے پڑھنے وپڑھانے کی تعلیم وترغیب دیتا رہاہوں ۔ آ ٹھ نو سال قبل ایک عمردار بزرگ(Ritired teache) نے بتایا تھاکہ :
’’یہ قادیانی ٹیچر کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ میں نے بچپن میں جس نسخے میں پڑھا تھا وہ نسخہ بھی قادیان ہی میں طبع ہوا تھا، لوگوں کو بتانے کے لیے میرے پاس وہ نسخہ کافی دنوں تک رکھارہا۔‘‘
ان بزرگ کے اس بیان کے بعد میرے دل میں اس کتاب کے تعلق سے تکدُّر پیداہوگیا۔ لیکن نورانی قاعدہ میں جس طرح بچوں کا وقت برباد کیا جاتا ہے اس کو دیکھتے ہو ئے میں اپنے دل کو دھوکہ دیتا اور پھسلا تا رہا کہ :زنادقہ کی لکھی ہوئی کئی ایک کتابیں ہمارے نصاب تعلیم میں شامل ہیں ، اسی طرح اس کو بھی چلنے دینا چاہئے۔ البتہ اس کووڈ 19؍ کے موقع پر ایک مشہور عالم مولانا فضیل احمدصاحب ناصری نے اس کتاب کے مصنف کے احوال اورکتا ب کے تعلق سے اس کے تاثرات کو اس کے سائٹ کے ساتھ ارسال فرمایا، جس میں یہ بتایا گیا کہ :اس کتاب کے مصنف نے معلون مرزا قادیانی سے تصدیق کرائی اور تصدیق وتصویب کے بعد اس نے اسے ’’مسلم وغیرمسلموں بچوں اورنومسلموں کے لیے مفید‘‘ لکھا ہے۔ ’’مسلم بچوں ‘‘ اور’’ نومسلموں‘‘ توسمجھ میں آتے ہیں ، لیکن’’ غیر مسلموں‘‘ سے کیامراد ہے ؟ اسی کے ساتھ مصنف کتاب نے چونکہ ملعون مرزاقادیانی کا درشن کیا تھا، اس لیے نجس و پلید مصنف کے لیے ’’صحابی ‘‘ جیسا جملہ بھی لکھا گیا ہے۔
جب سےان تفصیلات کا مجھے علم ہوا اس وقت سے باربارخیال آتا ہے کہ ہمارے مکاتب میں اس کتاب کو شامل کرنا ایمان سے محرومی کاسبب بن سکتا ہے ۔ اپنا اور دیگر لوگوں کا ایمان بچانے کے لیے میں نے اس قاعدہ سے اپنا رشتہ ختم کرلیا۔

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.