Baseerat Online News Portal

بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط8)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع: شاجاپور،ایم پی۔

نوارنی قاعدہ
اس قاعدہ کے اسم میں لفظ ’’نورانی‘‘ سورج ‘‘،یا’’چاند ‘‘یا ’’نورہدایت ‘‘اور’’روشنی‘‘کے معنی کے لحاظ سے نہیں شامل ہے ،بلکہ منصفِ قاعدہ کانام’’ نورمحمد‘‘ ہے ، مصنف نے اپنے نام کا پہلا جزوء اس قاعدہ کے تسمیہ میں شامل فرمایا ہے۔پھرمحی السنۃ حضرت مولانا الشاہ ابرا رالحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مختلف نسخوں میں پائی جانے والی کتابت وغیرہ کی غلطیوں کی اصلا ح کے بعدشائع کروایا۔
چونکہ حضرت ہرودئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قا عدے کوفروغ(Publicity) دیا، اس لیے اکثر مطابع حضرت کی وطنی نسبت کی مناسب نام سے اس قاعدہ کے ٹائٹل پیج پر ’’ہردوئی‘‘ بھی لکھنے کا اہتمام کرنے لگے۔ بعض بعض مطابع’’ کامل ہردوئی‘‘ بھی لکھتے ہیں۔
بعد میں ہانسوٹ کے ایک مدرسہ’’ سعادت دارین‘‘ کے کسی عالم وقاری نے مزید اس میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی ، اور اس قاعدہ کے نام میں’’نورانی قاعدہ‘‘ کے ساتھ’’ سعادتی ‘‘ کا بھی اضافہ کردیا۔ اور سعادتی نیک بختی کے معنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک بزرگ جو مدرسہ کے بانی وغیرہ ہیں ، ان کے نام کا ایک جزوء ’’سعادت‘‘ ہے ، تو ان بزرگ کے نام کو برکت کے لیے ’’نورانی قاعدہ ‘‘ نام کی ابتداء میں جوڑ دیا۔
جس طرح فرشتے کسی دینی مجلس کو زمین سے آسمان تک ڈھانپ لیتے ہیں اسی طرح جب اس ’’قاعدہ‘‘ پر اتنے بزرگوں کا سایہ ہوگیاتو اس کی ترویج و اشاعت اور افادیت کو عام وتام ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز پر بزرگوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور یہ بزر گ اپنے سے مربوط افراد کی افراط تفریط کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے ہیں ، تو یہ نسبتیں اس کو غلط راہ لے جانے کا قوی ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ اس کی موٹی مثال اولیاء کرام کے مزارات اور بزرگوں کی طرف منسوب وہ بے شمار خانقاہیں ہیں جوآج بزرگوں کے نام سے سنت وشریعت کے خلاف بدعات وخرافات کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں ۔
محی السنہ حضرت اقدس مولانا ابراالحق ہردوئی علیہ الرحمہ نے اس قاعدہ میں اصلاح کراکے بچوں کی نفسیات اورجدید طریقہ تعلیم کی رعایت کرتے ہوئے اسے پڑھانے کے لیے معلمین کی تدریب کا سلسلہ بھی شروع فرمایا۔حضرت کے اس مبارک تعلیمی سلسلہ کے شروع کوہونے سے قبل 1994ء میں اور تقریباًدس سال بعد تک عامۃ المسلمین جنہوں نے باقاعدہ مدارس میں اکتسابِ فیض نہیں کیا تھا وہ قرآن مجید کو کس قدرخلاف تجوید تلاوت کرتے رہے ہوں گے ، اس کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ بڑے بڑے دینی تعلیمی اداروں کے قدیم وجدید فضلاء جنھوں نے حفظ وقرأت اور تجوید نہیں پڑھی تھی ،ان میں اکثریت قرآن مجید کو نہ مخارج کے ساتھ پڑھتی تھی اور نہ ہی تجوید کی کوئی رعایت کرتی تھی۔لیکن حضرت کے اس سلسلۂ تعلیم کی شروعات کے تقریباًدس سال بعد مدارس سے فارغ ہو نے والے فضلاء ؛حفاظ وقراء کی طرح قرآن کی تلاوت کرنے لگے، یہی نہیں بلکہ مکاتب کے چھوٹے چھوٹے بچے تجوید کی رعایت اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہیں۔ اس قاعدہ کے توسط سے کلمات اذان واقامت کی بھی تصحیح ہوئی ہے۔
اس طرح حضرت محی السنۃ نے تلاوت قرآن میں مخارج وتجوید کی رعایت اورکلماتِ اذان واقامت کو سنت کے مطابق پڑھنے وپڑھانے کے لیے عظیم تجدیدی کارنامہ انجام دیا ہے ، جس کا ثواب حضرت کو صبح قیامت تک ملتا رہے گا۔ ان شَاء اللّٰہ
جاری۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.