Baseerat Online News Portal

بعض مکتبی کتب پر مفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط10)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس: جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور، ایم پی۔
تدریب المعلمین کے ذریعہ فضلائے مدارس کا استحصال

ملک کے مختلف حصوں میں نورانی قاعدہ کےتدریب المعلمین کیمپ (Teachers Training Capm) لگائے جاتے رہے ہیں ، ان کیمپوں میں مدارس کے بعض مہتممین اور بے شمار مدرسین اس لیے شرکت کر تے رہے تاکہ کیمپ روح رواں بزرگ ہمارے مدرسہ کو تصدیق دے کر چندہ کے لیے تعاون کردیں ۔ ایک بزرگ جن کے پاس مسلم ممالک سے اوقاف کی رقومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ تھا، ان کے کیمپ بہت کامیاب رہتے۔ بہترین قراء ان کے کیمپوں میں کافی اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔
نوارانی قاعدہ کے سلسلے میں چلائے جارہے تدیب المعلمین کے بعض اساتذہ(trainer) انتہائی درجہ بد اخلاق،بے وقوف اور متکبر ہوتے ہیں ، ایک جگہ کوئی اگرچہ ’’نورانی قاعدہ تدریب المعلمین‘‘کے علماء وحفاظ کا استاذ(trainer)ہے تو بھی دوسری جگہ’’نورانی قاعدہ تدریب المعلمین‘‘ کے دیگر استاتذہ((trainer))
اس کو غلط ٹھہرا دیتے ہیں۔ یہ غلط ٹھہرانے کا دور چلتا رہتا ہے ۔ یعنی کسی ایک جگہ نورانی قاعدہ کی تصحیح وتدریب دوسری جگہ نامنظور ہوتی ہے۔ اس طرح غلط ٹھہرا نے کا عمل اُن معلمین کے اندر زیادہ دیکھنے کو ملاجو کسی نہ کسی لحاظ سے بااختیار ہوتے ہیں ۔
’’نورانی قاعدہ تدریب المعلمین‘‘ کا سلسلہ شروع کرکے بڑے پیمانے پرنوجوان فضلائے مدارس کا استحصال ہواجس کے نتیجے میں وہ مایوس ہوکر ترقی معکوس کے ڈگر پرچل پڑے۔ کئی ایک فضلاء قادیانیوں اور دیگر گمراہ فرقوں کے دست وبازو بن گئے۔

*نورانی قاعدہ میں غلو*

اس کے علاوہ اس قاعدہ کے ساتھ کس قدر غلو کیا گیا اس کا اندازہ درج ذیل سطورسے ہوسکتا ہے۔
آ ج سے پندرہ سال قبل میرے ایک رفیق جو کہ ایک مدرسہ کے ذمہ دارہیں ، وہ تمام بچوں کو نورانی کی تعلیم دیتے تھے ، لیکن اپنے بچہ کی تعلیم کے لیے نورانی قاعدہ کا نامعلوم کون سا نسخہ دہلی سے لائے تھے ، جو بالا صاحب ٹھاکرے کے ایک روپیہ کے روزنامہ’’سامنا‘‘ کی طرح انتہائی خراب کاغذ پرطبع ہوا تھا۔ اس کے حاشیہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پر کنز الدقائق کا حاشیہ لگا ہوا ہے۔ بچے کوپڑھا نے کے بعد کچھ کاپی میں لکھ کراس کو دیتے اور پھر اس نسخہ کوچھپاکر اپنے ڈیسک میں رکھ لیتے تھے تاکہ کوئی دوسرا عالم یا قاری اس کونہ دیکھ سکے۔ میں نے پوچھا کہ: اپنے بچے کو اس نسخہ میں کیوں پڑھا تے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ :
’’حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نے قرأت قرآن کی تعلیم کا جو سلسلہ نورانی قاعدہ سے شروع فرمایا، میں چاہتاہوں کہ:حضرت کے کام کواس قدرآ گے بڑھاؤں کہ بچہ نورانی قاعدہ پڑھ کرروایات سبعہ وغیرہ کی قرأت پرعبور کرلے۔ اس کتاب کے حاشیہ میں اسی قسم کے موٹے موٹے قواعد لکھے ہوئے ہیں ، ابھی اپنے بچے کو پڑھاتاہوں تاکہ میرا بچہ نورانی قاعدہ کا بہت بڑا ماہر بن جائے ۔‘‘
بچہ وہ قواعد حفظ کرنے سے قاصر تھا، اس لیے موصوف اس پرکافی جسمانی تشدد کرتے تھے ، اسی تشدد کے نتیجے میں اس کے سر میں چوٹ لگ گئی، سر میں چوٹ لگنے یاکسی اور وجہ سے وہ بچہ بھینگا پن(ایک چیز کو دو دیکھنے) کا مریض بن گیا۔ لیکن تعلیم کاوہی سلسلہ جا ری رکھا، دو سالوں کے بعد بچے کے بارے میں میں نے معلوم کیا تو بتہ چلا کہ بچہ پاگل ہوگیا۔
میں نے ایک مدرسہ میں دیکھا کہ روایت حفص وسبعہ کے فارغین ( بلکہ بعض طلباء روایات عشرہ کے بھی فارغ تھے) نورانی قاعد ہ کوجھوم جھوم کرپڑھ رہے ہیں ۔
ایک عالم نے جہاں انھوں سے درس نظامیہ کی تکمیل کی تھی،وہاں کے بارے میں بتایا کہ:
’’سال میں ایک بار ہمارے مہتمم صاحب کا دماغ خراب ہوتاتھا وہ مکتب ، دینیات، حفظ، ناظرہ کے ساتھ دورۂ حدیث تک کے تمام اسباق بند کراکے ’’نورانی قاعدہ ‘‘ کی تعلیم کاسلسلہ شروع کرادیتے ۔ اور پھر وہ عالم جواس وقت صاحب اولاد ہیں ،انتہائی ناراضگی کے ساتھ اپنے ایک’’ بیوقوف نورانی استاذ‘‘ کی کہانی بیان کرتے تھے کہ: وہ ’’د‘‘ کا تلفظ صحیح نہیں کرپاتے تھے، وہ’’ فَدَمْدَمَ‘‘ کو’’ فَڈَمْڈَمَ‘‘ پڑھتے۔چونکہ رفقاء یعنی تلامذہ دورۂ حدیث کے ہوتے تھے ، اس لیے انھوں نے استاذ کے اس غلط تلفظ کی وجہ سے ان کی چڑھاؤنی’’ فَڈَمْڈَمَ‘‘رکھ دی۔ کسی طالب علم نے’’ فَڈَمْڈَمَ‘‘بول کر انھیں چڑھایا، لیکن اصل متکلم کے بجاے یہی صاحب ’’نورانی استاذ‘‘ کے ہتھے چڑھ گئے، انھوں نے بڑی قوت کے ساتھ انھیں چھڑی ماری ، وہ بتاتے ہیں کہ اس کی ٹیسیں آج بھی میں محسوس کرتاہوں ۔‘‘
اس طرح کامزید ایک واقعہ اپنی کتاب’’ مسجدیں اور علامات قیامت‘‘ سے نقل کرنا مناسب سمجھتاہوں :
’’ایک صاحب جو اس وقت ایک مدرسے کےمہتمم ہیں۔ ان کے پاس دیوبند سے عالمیت کی سند ہے، اور وہ روایت حفص کے مطابق مستند قاری بھی ہیں ، فراغت کے بعد تعلیمی خدمت کے لیے جگہ کی تلاش میں ایک ایسے ادارے میں پہنچے جہاں امامت ومؤذنی اور معلمی کی جگہیں آ تی رہتی تھیں، لیکن اس ادارے کی معرفت ،خدمات پر تقرر کے لیے ‘ نورانی قاعدہ‘‘ کی ٹریننگ لینی لازمی تھی، موصوف خواہی نہ خواہی’ نوارانی قاعدہ‘ کی ٹریننگ کے لیے داخل ہو ئے ۔ دوران ٹریننگ’ معلم نورانی‘ نے ان کے منہ سے حرف ‘ص‘ نکلوانے کے لیے ایک کم سن بچے کو مامور کیا۔ پھر دونوں کے درمیان یہ مذاکرہ ہوا:
’ بچہ: ص کو منہ بھر کر نکالتے ہیں ۔
عالم : تو مجھے یہ بتا کہ ص کا مخرج کیا ہے؟
بچہ: زیادہ باتیں مت کریں، منہ بھر کرص نکلتا ہے، آ پ اسی طرح نکالیں۔
عالم: ارے میں روایت حفص کے مطابق قاری ہوں، تومجھے پہلے اس کا مخرج بتادے،میں پھر نکال کر بتاؤں گا۔
وہ بچہ ص کا مخرج نہیں بتا سکا۔’ معلم نورانی‘ کو اپنے ’منا شاگرد‘ کی بے عزتی ناگوار معلوم ہوئی اور عالم صاحب موصوف کو بھی ایسی معکوس تعلیم سے ملال ہوا،مایوس ہوکر وہاں سے روانہ ہو گئے، کافی دنوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد آ ج وہ ایک مدرسے کے مہتمم ہیں ۔‘‘
(مسجدیں اور علامات قیامت، ص26؍ بندہ (مفتی)محمداشرف قاسمی، ناشر جامعہ اصحاب صفہ،مکسی،ضلع شاجا پور،ایم پی۔2016ء)
جاری۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.