Baseerat Online News Portal

بعض مکتبی کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط11)

پیشکش:مولانامحمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور، ایم پی۔

نورانی قاعدہ اورمعکوس تعلیمی ترقی

کسی سردار نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرکے اپنے بچے کا داخلہ پانچویں کلاس میں کرادیا۔ لیکن پانچویں کلاس میں نہ چل سکنے کی بناپر اس کوایک کلاس پیچھے کردیا گیا۔ سردارصاحب نے وجہ پوچھی توبتایاگیا پانچویں میں نہیں چل سکتا ہے اس لیے چہارم میں کردیا گیا۔
کچھ دنوں کے بعداسے چہارم سے بھی پیچھے کردیا گیا، اور پھر سردار صاحب سے وہی عذر پیش کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد مزید پیچھے درجے میں بچے کو داخل کردیا گیا۔ اور سردار صاحب سے اُسے آگے نہ چل سکنے کا عذر پیش کیاگیا۔
تو اپنے گھرآکرسردارصاحب نے بیوی سے کہا: ”میڈیم تیار ہوجائیے کیونکہ بیٹا بیک ہورہاہے۔“
بالکل یہی تماشہ نورانی قاعدہ کے تدریب المعلمین مراکزمیں مدارس کے نوجوان فضلاء کے ساتھ ہوتارہا ہے۔ان کے بال پر تراشنے کے لیے کچھ لوگوں کے ہاتھ نورانی کاقاعدہ نام کی اچھی قینچی آگئی۔ سوال یہ ہے کہ دس سال تک مدرسوں میں کیا پڑھایا گیا کہ انھیں اس قدر ذلیل و رسوا کیاجارہاہے؟

*بزرگوں سے عقیدت یا کاروبار*
میں نے اپنے یہاں بیر جالی محلہ(مہدپور، اُجین)میں ایک جلسہ کروایا جس میں حضرت مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی مدظلہ العالی ( لکھنؤ) اور مولانا محمد اشفاق الرحمن صاحب رحمانی (اندور)تشریف لائے ۔میں نے اس جلسہ میں نورانی قاعدہ کے بارے میں جوغلو ہے اس سے بچنے کے لیے کچھ کہہ دیا۔ اس پر حضرت مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی نے ناگوار ی کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیج پرمجھ سے سوال وجواب فرمایا۔جس پر میں نے اس کے کچھ نقصانات میں بچوں کا زیادہ وقت صر ف ہونے کے علاوہ یہ بھی بتلایاکہ: ”اس قاعدہ کے التزام اور تدریب کے نامناسب شرائط کی وجہ سے ہمارے فضلاء ضائع ہو رہے ہیں ، بعض فضلاء دیگر مکاتب فکر کے دست وبازو بن گئے ہیں۔ “
بعد میں میں نے کچھ دیگر علماء سے حضرت مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی مدظلہ العالی کے اس سوال وجواب کے بارے میں ذکر کیا تو انھوں نے بتایا کہ :
’’مولاناعبدالعلی صاحب فاروقی تقریر اور مناظرہ میں نامور ہونے کے علاوہ اخلاق میں بھی منفردشان کے حامل ہیں۔‘‘

پھرمیں نے دو جمعوں میں نورانی قاعدہ کے سلسلے میں تدریب المعلمین کے مراکز اور طریقۂ تعلیم کی نامعقولیت پر بڑی شد ومد کے ساتھ تقریریں کیں ۔ اوردوسرے جمعہ کے بیان میں میں نے یہ بھی کہا کہ:
’’ اگرمیری حکومت آجائے تو نورانی قاعدہ کے تدریبی دروس چلانے والوں کو سری لنکا کی طرح پھانسی پر لٹکادوں گا، اورپھانسی ان کے گلے میں نہیں بلکہ پیروں میں ڈالوں گا۔‘‘

آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہاہوں تب تک حالات میں کافی سدھارواعتدال آ چکا ہے ۔ الحمد للہ علی ذالک
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مدراس کے فیض یافتہ اصاغر کواپنا غلام بنانے کے لیے حضرت مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی بزرگوں سے محبت کا دم بھرتے ہیں، یا واقعی ان کے دل میں اکابر کا احترام ہے۔ کیوں کہ وہ فرمانِ رسول ﷺ اور بزرگوں کی صریح ہدایت کے خلاف اپنا نام’’ عبدالعلی ‘‘ رکھے ہوئے ہیں ۔ حدیث میں آتاہے:
حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، وَقُتَیْبَۃُ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ وَھوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَائِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ عَبْدِی وَأَمَتِی کُلُّکُمْ عَبِیدُ اللہِ، وَکُلُّ نِسَائِکُمْ إِمَائُ اللہِ، وَلَکِنْ لِیَقُلْ غُلَامِی وَجَارِیَتِی وَفَتَایَ وَفَتَاتِی۔ (مسلم برقم الحدیث 5874)

’’ حضرتِ علاء کے والد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :تم میں سے کوئی شخص (کسی کو) میرا بندہ اور میری بندی نہ کہے ، تم سب اللہ کے بندے ہواور تمھاری تمام عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں ۔ البتہ یو ں کہہ سکتا ہے ۔میرا لڑکا میری لڑکی، میراجوان ، خادم ، میری خادمہ۔‘‘( مسلم برقم الحدیث 5874)
اور اسی حدیث کو نقل کرکے حضرت مولانا شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘ عبدالنبی‘‘، ’’بندہ علی‘‘ اور’’ بندہ حضور‘‘ کہلوانے کو منع فرمایا ہے۔
(تقویۃ الایمان، صفحہ 83، فصل خامس، اشراک فی العادات۔ شمع بک ایجینسی،لاہور،2001ء)
جب ایک ادنی مولوی نے مخصوص حالات کے پیش نظر اپنے بزرگوں کے نام پر غلو کرنے والوں کے خلاف کوئی بات کہہ دی تو موصوف نے اس سے اسٹیج پرسوال وجواب کاسلسلہ شروع کردیا ۔ لیکن اپنے نام کے بارے میں انھیں اپنے بزرگوں کی ہدایت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں؟ حضر ت مولانا عبدالعلی صاحب فاروقی مدظلہ العالی اگر واقعی بزرگوں سے سچی عقیدت رکھتے ہیں تو اولِ فرصت میں انھیں اپنا نام تبدیل کرلیناچائے۔ورنہ تقریر وتحریر میں کاروباری لحاظ سے تو کامیابی ان کی قدم چوم ہی رہی ہے۔
الغرض نورانی قاعدہ کافی عمدہ وبہتر کتاب ہے۔ محی السنۃ حضرت مولانا ابرارا لحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ذریعہ قرأتِ قرآنِ مجید میں تصحیح حروف وکلمات اورتجوید کا تعلیمی سلسلہ شروع فرماکرعظیم الشان تجدیدی کارنامہ انجام دیاہے۔ لیکن اس قاعدہ کے سلسلے میں جوغلو ہے اور تدریب المعلمین کے مراکز میں فضلاء مدارس کاجو استحصال واستخفاف ہورہا ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بڑ وں وبزرگوں کواس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے، تاکہ نئے فضلا ء مایوس ہوکر ضائع ہونے یا باطل کے دست وبازو بننے سے محفوظ رہ سکیں۔
جاری ۔۔۔۔۔

Comments are closed.