Baseerat Online News Portal

بعض مکتبی کتب پرمفتی محمد اشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ ( قسط12)

پیشکش: مولانا محمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع: شاجاپور،ایم پی۔

دینیات(فائن ٹچ،ممبئی)

فائن ٹچ (ممبئی )میں مکاتب کے لیے جودینیات کا نصاب تیار کیا گیا ہے ، اس کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اس کی تیار ی میں قدیم وجدید دونوں طریقہائے تعلیم اور نصاب کے لیے منصوبی طریقہ(Projective Technique) اور ڈالٹا پلان کے ساتھ فیروبل (Froebel)اور مانٹیسری(Montessori) کے ضوابط کی بھی رعایت کی گئی ہے۔ نورانی قاعدہ میں جو ابتدائی تختیوں میں حروف تہجی کی شناخت کے لیے مشق و تمرینات کی کمی تھی اس میں وہ بھی دور کردی گئی ہے۔ اس میں حروف تہجی کی مفرد تختی کو کئی صفحات پر پھیلا دیا گیا، اس کو پڑھتے ہوئے چھوٹے بچوں کو اپنے سبق آ گے بڑھنے کا احساس انہیں حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ جب کہ نورانی قاعدہ کی ابتدائی تختی میں ایسا نہیں ہے۔ نیزمختلف اسباق کو مواقیت کے ساتھ مربوط کرکے جملہ اسباق کے لیےخاکہ(Lesson plan) بھی پیش کیاگیاہے جو کہ جدید نظام تعلیم کا اہم حصہ ہے۔دینیات کے تمام رسالوں کو دیکھنے سے احساس ہوتا ہے کہ اس نصاب کی تیاری میں ذی استعداد فضلائے مدارس کے ساتھ عصری درسگاہوں کے فضلاء کی بھی مدد لی گئی ہے۔
یہ نصاب جس انداز میں تیار کیاگیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تیار ی کا اصل محرک اعلی معیار کے عصری اسکولس ہیں ، اس لیے اعلی معیار کے ماڈرن اسکولس کی جدت وجاذبیت اور نظام اوقات کا رنگ کافی شوخی کے ساتھ اس میں دِکھائی پڑھتا ہے ۔جس کی عرصہ دراز سے ضرورت تھی۔ یعنی اسکولی طلباء کے لیے دینیات کی تعلیم کا ایسا پرکشش نظام ونصاب تیار کیاجائے جوماڈرن اسکولوں میں بآسانی قبول کیا جاسکے۔ یہ ضرورت اس نصاب سے کسی قدر پوری ہوسکتی ہے۔
بعد میں اس میں توسیع ہوئی، بالغان کے لیے بھی نصاب تیارہوا، اور پھر مستقل ایک نصاب خواتین کی دینی تعلیم کے لیے تیار کیا گیا۔ نیز ان تمام نصابوں کو اسکولس کے ساتھ (اسکولی نظام ومواقیت کی پابندی کے ساتھ)مساجد میں صباحی ومسائی مکاتب میں بھی جاری کردیا گیا۔
چونکہ عصری تقاضوں کی بھرپور رعایت کے ساتھ دینیات کا یہ نصاب جاری ونافذ ہوا،اس لیے عصری درسگاہوں کے طلباء اور ان کے نصاب تعلیم ونظام کی طرح اس نصاب ونظام کے اچھے اثرات جہاں اس کے پڑھنے والے طلباء پرپڑر ہے ہیں وہیں معاشرہ پر بھی اس کی چھاپ قائم ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کی بعض آدبادیوں میں مسلم خواتین نقاب وبرقعہ کو معیوب سمجھتی تھیں ، اس نصاب ونظام کے بعد مکاتب کی بچیوں کی دیکھا دیکھی وہاں دیگر خواتین بھی نقاب وبرقع کی پابند ہوگئیں ، آ ج ماڈرن سوسائٹی میں کرتااور ٹوپی جیسے اسلامی شعائرختم ہورہے ہیں ، لیکن اس نظام ونصاب نے مسلمانوں کواپنی تہذیب سے جوڑنے اور تمدن اسلامی کے احیاء کا کارنامہ بھی انجام دیا۔
ایک اہم بات کی طرف حضرت قاری محمدطیب صاحب ؒ(سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے تو جہ لائی تھی کہ مکاتب میں عربی زبان کی تدریس کا بھی سلسلہ شروع کیا جائے، لیکن ابھی تک مکاتب میں عربی زبان کی تعلیم کی طرف تحریک کی صورت میں توجہ نہیں دی جارہی تھی ، اس نصاب میں عربی زبان کے اسباق کوبھی شامل کیا گیا ہے۔نیز مختلف زبانوں میں دینیات کایہ نصاب تیار کیا گیا ہے ، اس لیے اس نصاب کی وجہ سے اردو یاکسی بھی مردہ زبان کو اسلامی زبان سمجھ کر اپنے کندھے پر لادے رہنے کی ضرورت نہیں باقی بچی ۔

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.