Baseerat Online News Portal

بعض مکتبی کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ( قسط13)

پیشکش: مولانا محمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔

دینیات،نصاب میں کمزوریاں

مجھے اس نصاب میں کوئی خاص کمزوری نہیں نظر آئی، البتہ چونکہ یہ اعلی معیار کے ماڈرن اسکول کو سامنے رکھ کرتیار کیا گیا ہے ،اس لیے ممبئی اور مختلف متمول کاروباری شہروں میں تو اس کی افادیت وعمومیت سمجھ میں آتی ہے ۔ لیکن بعض علاقے جہاں پانچ روپیہ کا قاعدہ خریدنے کے لیے پیسہ نہ ہو اورپہننے کے لیے ان کے پاس کپڑا نہ ہو، ایک دوروپے یومیہ وظیفہ اورمڈ ڈے میل(Midday Meal) کے لیے بچے سرکاری اسکولوں میں بھاگ بھاگ کرجاتے ہوں یا وہ پیٹ کی آ گ بجھانے کے لیے اپنے ماں باپ کاہاتھ بٹانے پرمجبورہوں انھیں اس قدرمہنگی کتابیں اور فیس وغیرہ کا انتظام کرکے اس نصاب سے مسفتید ہونا کافی دشوار ہے۔
نیز بعض معلمین کی طرف سے شکایات ملی ہیں کہ چونکہ اسکولوں کے مطابق اس نصاب کے مواقیت ہیں ، اس لیے اسکولوں کی پیروی کرتے ہوئے گرمی کی چھٹیوں میں مکاتب بھی بند کردئیے جاتے ہیں ، اور اساتذہ کو ان ایام تعطیل کے وظائف نہیں دیے جاتے ہیں ۔دینیات کے اساتذہ (خواہ مکاتب سے تعلق رکھتے ہوں یا اقامتی مدارس سے )کے وظائف کوحسنِ انتظام کے لیے نظامِ اجارہ سے مربوط رکھنا ضروری وبہتر ہے ، لیکن پوری طرح سے اس کو معاش(Profession) کے طور پر نافذکر نے سے دینیا ت کے معلمین ضائع ہو جاتے ہیں۔معلمین کو تعطیلات کے وظائف سے محروم کردینے کی صورت میں ادارہ کے نصب العین کے خلاف علماء کی تضیع لازم آتی ہے ، جو کہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ دینی تعلیم کو عروج وفروغ دینا چونکہ اس نصاب ونظام کا نصب العین ہے ،اس لیے تبرعا چھٹیوں کے وظائف بھی معلمین کودینا جانا چاہیے ، تاکہ دینی تعلیم وتعلم کا یہ مبارک سلسلہ خالص پروفیشن کے بجائے علماء پروری کا بھی سرچشمہ بن سکے۔
*دینیات نامی کتاب کے ایک مسئلے میں تسامح*

’’کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرعِ متین درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ :
خواتین کے لیے ہندی اور اردو میں لکھی گئی کتاب ’دینیات‘ میں نمازِ وتر کے پڑھنے کے طریقے میں لکھا ہے کہ: سورہ فاتحہ اور دیگر سورۃ پڑھنے کے بعد دعاءِ قنوت کے لیے جب ہاتھ اٹھائیں تو کانوں تک اٹھائیں۔ اصل عبارت ذیل میں نقل کی جاتی ہے:
’اللہ اکبر کہتی ہوئی ہاتھ کانوں تک اٹھائے اورباندھ لے اوردعاءِ قنوت پڑھے۔‘
(دینیات: حصہ اول، صفحہ:111 باب: عقائد و مسائل)
صحیح اور سنت کیا ہے۔ کانوں تک ہاتھوں کو اٹھانا چاہیے یا کندھوں تک؟جواب مرحمت فرمائیں۔بینوا وتوجروا! اُم کلثوم بنت فیروزخان، پردھان ٹیلر
(معلمہ: دینیات،شعبۂ خواتین، جماعت مسلم ناگوریان ، مہد پور، اجین ،ایم پی)
الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد:
کتابِ مذکور میں کتابت یا پروف ریڈنگ کے وقت یا پھر مسئلہ تحریر کرتے وقت کندھوں کے بجائے کانوں تک لکھا گیا ہے۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ عورتیں تمام نمازوں میں اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائیں گی، نہ کہ کانوں تک۔بہشتی زیور میں ”وتر نماز کا بیان“عنوان کے تحت حضرت حکیم الامت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:
”الحمد اور سورت پڑھ کر اللہ اکبر کہے اور کندھے تک ہاتھ اٹھائے، اور پھر دعاءِ قنوت پڑھے۔“
(اختری بہشتی زیور، ج: 2 ص: 28)
شامیہ کی جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں مَردوں کے لیے یہی طریقہ بیان ہواہے۔بدائع الصنائع میں ہے کہ:
فأما المرأۃ:…عن اصحابنا:انھا ترفع یدیھاحذو منکبیھا (3)، لان ذٰلک استرلھا، وبناء امرھن علی الستر، ”
وفی الحاشیۃ: (3) وبہ یفتی، فقد روی البخاری فی جزء رفع الیدین (صفحۃ 12) سأل عبد ربہ بن سلیمان بن عمیر: رأیت ام الدرداء رضی اللہ عنھا ترفع یدیھا فی الصلوۃ حذو منکبیھا،(بدائع الصنائع، ج: 1 ص: 466 زکریا، ھدایہ، ج: 1 ص: 84۔ البحرالرائق، ج: 1 ص: 322.۔ الجوھرۃ النیرۃ، ج: 1 ص: 70۔۔ شامیہ، ج: 1 ص: 504۔) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اشرف قاسمی
20 جنوری 2019ء
خا دم الافتاء شہرمہدپور،اجین (ایم پی)

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.