Baseerat Online News Portal

شب قدر بڑی عظمت وبزرگی والی رات

مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل،چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن
ماہ رمضان کی برکات اوررحمتوں کو حاصل کرنے کے لیے اہل ایمان کو اس مہینے میں جن اعمال کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے،ان میں سرفہرست روزہ ہے۔اسی طرح قیام رمضان بھی ہے؛یعنی تراویح وتہجد کی نمازیں ہیں۔اسی طرح تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت ہے؛کیوں کہ اس مہینہ کے جو فضائل ہیں،وہ اسی کتاب حکمت کے نزول کی وجہ سے ہے،خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
”وَکَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ فِی رَمَضَانَ، حَتَّی یَنْسَلِخَ، یَعْرِضُ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ“۔(صحیح البخاری،باب أجود ماکان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکون فی رمضان،رقم الحدیث:1902)(جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات کو ملتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن مجید سناتے۔)
ماہ رمضان کے خصوصی اعمال میں سے ایک اعتکاف ہے،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عمل کو انجام دیتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ“۔(صحیح البخاری،باب الاعتکاف فی العشر الأواخر،رقم الحدیث:2025)(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔)
ان کے علاوہ نیکی اورخیر کے جتنے بھی کام ہیں،ان سب کے ثواب کو بڑھا دیا جاتا ہے؛اس لیے اس مبارک ماہ میں صدقہ وخیرات،دعوت وتبلیغ،دعاومناجات،ذکر واذکار،توبہ واستغفار،تعلیم وتعلم،صلہ رحمی وغیرہ کے کاموں میں سبقت حاصل کرنی چاہیے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِی رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَۃِ“۔(صحیح البخاری،باب کیف کان بدء الوحی،رقم الحدیث:6)(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ سخی تھے، یہ سخاوت ماہ رمضان میں اس وقت اوربڑھ جاتی،جب جبرئیل امین علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے،اس وقت آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہوئے خیر کے کاموں کی طرف سبقت لے جاتے تھے۔)
رمضان کا پورا مہینہ خیر وبرکت کا مہینہ ہے،البتہ جب رمضان کاآخری عشرہ ہوتا ہے تواس کی فضیلت دو چند ہوجاتی ہے؛اس لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس عشرے کی فضیلت کو پانے کے لیے مکمل طورپر اپنے آپ کو فارغ کرلیتے تھے،چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے:
”کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِءْزَرَہُ، وَأَحْیَا لَیْلَہُ، وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ“۔(صحیح البخاری،باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان،رقم الحدیث:2024)(جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اوران راتوں میں خود بھی جاگتے اوراپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔)
اسی آخری عشرے میں ایک رات ”شب قدر“ہے،جسے قرآن مجید میں لیلۃٌ مبارکۃٌ سے تعبیر کیا ہے،یہ رات بڑی عظمت وبزرگی والی رات ہے،کتاب وسنت میں اس کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے،اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:(ترجمہ:)یقینا ہم نے ہی اسے یعنی قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا،تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں،یہ رات فجر طلوع ہونے تک سراسر سلامتی ہے۔(سورۃ القدر:1-5)
شب قدر ماہ رمضان کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھا ہے۔بہتر یہ ہے کہ بیس کی شب سے اس کی تلاش وجستجو میں لگا جائے؛کیوں کہ اگر بیس رمضان سے ہی ہر رات تلاش وجستجو میں گذارا جائے تو ایک نہ ایک رات ضرور شب قدر کا ملنا یقینی ہے۔

Comments are closed.