Baseerat Online News Portal

صدقۃ الفطر

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی
9826268925

رمضان المبارک کے روزے مکمل کر لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں خوشی اور شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اوراس کی بے پناہ عنایتوں سے رمضان المبارک کے روزے مکمل کر سکا ہے۔ اس دن دیگر قوموں کی طرح مختلف قسم کی تفریح، کھیل کود یا دیگر شوروشغب کا مشغلہ اختیار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جائے، وہ اس طرح سے کہ صدقۃ الفطر کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی جائے۔ ان کے دکھ درد میں برابر کا شریک رہا جائے، ان کو اور ان کے بچوں کو کھلا پلا کر آپس میں خوشی منائی جائے، غرباء بھی خوش کہ ان کو خوشی میں شریک کیا گیا اور اللہ تعالیٰ بھی خوش کہ اس کے غریب بندوں کو خوشی میں شامل کر کے اس کی خوشنودی حاصل کی گئی اور عبادت سمجھ کر یہ کام انجام دیا گیا۔
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت براکاتہم لکھتے ہیں:” شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی خوشی اور مسرت کا موقع آۓ تو صرف امیروں کے دولت کدہ ہی میں خوشی کا چراغ نہ جلے، بلکہ غریبوں اور ناداروں کے غربت کدہ میں بھی اس کی روشنی پہنچے، اسی لئے خوشی کے موقع پر سماج کے غریب افراد کو یاد رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، بقرعید کی قربانی میں ایک تہائی غریبوں کا حق قرار دیا گیا، ولیمہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے، اسی طرح عید الفطر کی خوشی میں غرباء کو شریک کرنے کے لئے صدقۃالفطر مقرر کیا گیا۔”
صدقۃ الفطر کی اہمیت اور اس کی حکمتیں:
صدقۃ الفطر سنہ دو ہجری میں فرض ہوئی ہے اور اسی سال رمضان کے روزے فرض ہوئے ہیں۔ جمہور فقہاء فرماتے ہیں کہ یہاں پر فرضیت کے معنیٰ وجوب کے ہیں یعنی صدقۃ الفطر واجب ہے اور اس فرمان الٰہی "وآتوالزکوۃ” (البقرہ110، النساء 77، النور: 56) کے عموم میں داخل ہے۔ اس کے وجوب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کراتے تھے، ترمذی شریف میں ہے کہ صدقۃ الفطر کے متعلق مکہ معظمہ کی گلیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ مردو عورت پر یہ صدقہ واجب ہے اس صدقہ کے اندر بہت سے دینی اور دنیاوی مصالح مضمر ہیں۔صدقۃ الفطر کے وجوب کی حکمت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر اس لئے واجب قرار دیا کہ روزہ دار لغو اور رفث سے پاک ہوجائے اور مساکین کو کھانا میسر آجائے۔( دارقطنی 219) (بیہقی 163) ممکن ہے کہ روزہ داروں کے روزوں میں کچھ نا مناسب افعال سرزد ہو گئے ہیں اور کوئی ناشائستہ بات زبان سے نکل گئی ہو صوم کامل (مکمل روزہ) تمام کا روزہ ہوتا ہے اور روزہ دار کے کان، ناک، آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ اور پیر تمام کے تمام ہر اس فعل سے باز رہتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہواور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ روزہ دار ان تمام ممنوعات سے اجتناب کر سکے اس لیے کہ انسان کمزور مخلوق ہے اورخطا اور بھول چوک سے مرکب ہے۔
روزہ میں سر زد ہوجانے والی اس ممکنہ کوتاہی کے پیش نظر صدقۃ الفطر واجب ہوا تاکہ روزہ دار اس کوتاہی سے پاک صاف ہو جائے، اس کے روزے میں جو آمیزش ہوئی ہے وہ دھل کر زائل ہو جائے اورجو نقص رہ گیا ہے اس کی تلافی ہو جائے کیونکہ قاعدہ ہے کہ حسنات (نیکیوں) سے سئیات (برائیاں) دور ہو جاتی ہیں۔
نماز پنجگانہ کے ساتھ سنتوں اور نفلوں کا حکم شرعی بھی اس حکمت پر مبنی ہےکہ اگر نماز میں کوئی غفلت ہو جائے یا اس کے کسی ادب کی تکمیل میں کوتاہی ہو جائے تو سنتوں سے اس کی تلافی ہو جائے گی بعض ائمہ نے صدقۃ الفطر کو سجدۂ سہو سے تشبیہ دی ہے چنانچہ وکیع ابن الحجراح فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کے بعد صدقۃ الفطر نماز کے سجدۂ سہو کی طرح ہے سجدۂ سہو سے نماز کے نقصان کی تلافی ہو جاتی ہے اسی طرح صدقۃ الفطر سے روزے کے نقصان کی تلافی ہو جاتی ہے۔ (نہایۃ المحتاج صفحہ 108ج2)
دوسرا پہلو معاشرے سے متعلق ہے کہ صدقۃ الفطر کے ذریعے محبتوں کی فراوانی اور مصلحتوں کی ارزانی کو معاشرے کے تمام افراد بالخصوص مساکین اور ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے۔ کیونکہ عید کا دن عام خوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہےاور اس خوشی کو مسلم معاشرے کے تمام افراد کے درمیان عام کرنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ ایک غریب مسکین اس صورت حال میں خوش نہیں ہو سکتا کہ معاشرے کے خوشحال افراد خوش ذائقہ غذائیں کھا رہے ہوں اور وہ اس عام خوشی کے دن بھی ایک وقت کی روٹی سے محروم ہو۔
عیدالفطر کے دن روزہ حرام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صاحب نصاب پر یہ واجب کر دیا گیا ہے کہ وہ غرباء تک صدقہ پہنچا دیں تاکہ اس روز کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اور عید کی خوشی میں شریک ہو سکے، اور فارغ البال ہو کر دوگانہ عید کی ادائیگی کے لیے عید گاہ حاضر ہو۔
اس لیے حکمت شارع اس امر کی مقتضی ہوئی کہ ملکے اس روز خوش حال افراد پر کچھ ایسی ذمہ داری عائد کر دی جائے جو معاشرے کے نادار افراد کو ضرورت کے چنگل سے نکال دے اور سوال کی ذلت سے نجات دے دے، اور انہیں یہ احساس ہو جائے کہ معاشرے نے انہیں نظر انداز نہیں کیاہے اور اس خوشی کے موقع پر انہیں فراموش نہیں کیا ہے۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ "آج کے دن انہیں (اہل ضرورت کو) روز کے چکر سے مستغنی کر دو۔”(بیہقی ابن سعد 184/4) پھر اس میں اللہ تعالیٰ کے احسان وکرم کا شکریہ بھی ہے کہ اس نے احکام رمضان یعنی روزہ، تراویح کی بجا آوری کی توفیق عطا فرمائ ہے۔
صدقۃ الفطر کا وجوب:
یہ صدقہ ہر ایسے مالدار مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عید کے روز مالک نصاب ہو، اس میں مالدار سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کے پاس اپنی بنیادی ضروریات۔ مکان، کپڑے، گھر کے ضروری سامان، استعمال کی سواری وغیرہ کے علاوہ کوئی بھی چیز نصاب زکوۃ کی قیمت کی موجود ہو زکوٰۃ کا نصاب 7.5یعنی 87.5 گرام سونا اور 52.5 تولہ ام یعنی 612 گرام/33 ملی گرام چاندی ہے،اگر ایک یا دونوں چیزیں مذکورہ مقدار میں موجود ہوں یا دونوں چیزیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہوں جن کی قیمت612گرام33/ملی گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے۔ زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوۃ کچھ مخصوص مالوں ہی میں واجب ہوتی ہے،،یعنی سونا،چاندی روپے، مال تجارت بعض جانور اور زرعی پیداوار،اگر کسی کے پاس ڈھیر ساری زمینیں ہوں، کئی مکانات ہوں، مگر بیچنے کے لیے نہیں رکھے گئے ہوں تو ان میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی لیکن صدقۃ الفطر واجب ہو جائے گا، (فتح القدیر صفحہ29ج2)
صدقۃ الفطر اپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے،اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے واجب ہے۔بالغ لڑکے کے لڑکیاں بیوی، اس کے زیر پرورش چھوٹے بھائی بہن اور والدین کی طرف سے صدقہ الفطر واجب نہیں ہے، لیکن ہندوستانی سماج میں بیوی اور شوہر کا مال ملا جلا ہوتا ہے اور بالغ لڑکے جب تک ماں باپ کی کفالت میں ہوتے ہیں اور تعلیم وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں تو ان کی بھی ساری ذمہ داریاں گھر کا ذمہ دار خود انجام دیتا ہے،یہی حال ان چھوٹے بھائی،بہن اور والدین کاہے، جن کی کفالت گھر کا کوئی مرد انجام دیتا ہو، اس لیے بہتر ہے کہ ان سب کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کر دیا جائے۔
صدقۃ فطر کا وجوب:
عید الفطر کی کی فجر طلوع ہونے پر ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوعِ فجر سے پہلے مرجائے یا فقیر ہو جائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے، اسی طرح جو شخص طلوعِ فجر کے بعد اسلام قبول کرے کرے یا مال پاجائے،یا یا جو لڑکا بعد طلوع فجر کے پیدا ہو اس پر بھی صدقہ واجب نہیں، ہاں جو لڑکا کا قبل طلوعِ فجر کے پیدا ہو یا جو شخص قبل طلوعِ فجر کے اسلام لائے یا مال پا جائے اس پر صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر کے واجب ہونے میں روزہ دار ہونا شرط نہیں، جس شخص نے کسی عذر کے سبب سب سے روزہ نہ رکھا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے جو بدبخت مسلمان بے عذر بھی روزہ ترک کرے گا اس کے ذمہ بھی صدقہ فطر واجب ہوگا۔
صدقۃ الفطر کی مقدار:
صدقۃ الفطر کی مقدار گندم (گیہوں) آٹا اور ستو نصف (آدھا)صاع ہے اور کھجور کشمش اور جو ایک صاع ہے۔گیہوں اور جو کے علاوہ جتنے بھی قسم کے اناج اور غلہ ہیں مثلاً چاول،دھان، چنا، باجرہ، جوار،مٹر، مسور، اور ارہر وغیرہ تو ان تمام میں نصف صاع کی قیمت سے حساب لگا کر صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا۔نصف صاع موجودہ اوزان کے اعتبار سے ایک کلوچھہ سو تینتیس گرام (1.633 گرام ہوتا ہے اور مکمل ایک صاع برابرتین کلو دو سو چھیاسٹھ گرام( 3.266 )گرام ہوتا ہے۔
گیہوں جو،کھجوراور کشمش کی جو مقدار متعین ہے اپنے اپنے علاقے میں ان کی قیمت معلوم کرکے اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کیا جائے اور خصوصاً اہل ثروت افراد کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ صدقہ فطر کی ادائیگی کیلئے کھجور یا کشمش کو پیمانہ بنائیں۔کھجور یا کشمش کابھاؤبازار سے معلوم کرسکتے ہیں۔ان میں سے بھی کشمش کو پیمانہ بنانا زیادہ افضل ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں زیادہ مقدار کا صدقہ فطر دینا ہوگا اورحدیث میں دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہے۔
بہر صورت زیادتی مستحسن عمل ہے اس لیے کہ فدیہ صیام جو کہ مسکین کو کھانا کھلانا ہے کہ بارے میں فرمان الٰہی ہے۔ کہ فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ (البقرہ:184) جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرےتو یہ اسی کے لئے بہتر ہے۔
امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص کے مال پر ایک بنت مخاض اونٹنی تھی وہ نہ دودھ دینے والی تھی اور نہ ہی سواری اور بوجھ ڈھونے کے لائق تھی اس لیے زکوٰۃ دینے والے نے خود اسے زکوۃ میں دینے پر رضامند نہ ہوا اس نے چاہا کہ بلند کوہان والی اونٹنی زکوۃ میں دے مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لینے سے انکار کیا کیونکہ یہ اصل فرض سے زائد تھی، یہ فیصلہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اونٹنی تم پر واجب ہے لیکن اگر تم اس سے بہتر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گااور ہم قبول کر لیں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اونٹنی لے لینے کا حکم فرمایا اوراس کے مال میں برکت کی دعا فرمائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ نے تمہیں وسعت دی ہے تم بھی وسعت اختیار کرو۔(فقہ الزکوۃ 527/2)
قابل توجہ بات:
اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ رقمطراز ہیں” کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے گیہوں کو صدقۃ الفطر کا معیار مقرر کیا ہے، اسی طرح جو، کھجور،کشمش اور پنیر کو بھی صدقۃ الفطر کے لئے معیار بنایا ہے (بخاری حدیث نمبر1506)عہد نبوی میں ان تمام چیزوں میں سب سے قیمتی شے گیہوں تھی، حجاز میں گیہوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، گیہوں شام یا یمن سے امپورٹ کیا جاتا تھا اس لیے جن غذائی اشیاء کو صدقۃ الفطر کا معیار بنایا گیا تھا، ان میں گیہوں ہی سب سے قیمتی چیز تھی، اس لیے دوسری چیزیں ایک صاع کی مقدار میں واجب قرار دی گئیں اور گیہوں نصف صاع، اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کشمش کے لحاظ سے صدقہ فطر ادا کیا جائے تو اس وقت اوسط درجے کی کشمش 200 روپے ہے اور اوسط درجے کی کھجور بھی اسی قیمت میں ہے، اس لحاظ سے ایک شخص کا صدقۃ الفطر 700 ہوتا ہے اور اگر ان حدیثوں اور زیادہ تر فقہاء کے اقوال کی بنیاد پر ایک صاع گیہوں صدقۃالفطر کے طور پر نکالا جائے تو فی کس ساڑھے تین کلو ہو جاتا ہے، اس لیے اگر چہ پونے دو کلو گیہوں سے فطرہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن تمام لوگوں کا اسی پر قانع ہو جانا شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ اس لیے جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہے، ان میں جو بڑے تاجر اور اصحاب ثروت ہیں ان کو کھجور اور کشمش کی قیمت سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے، جو لوگ معاشی لحاظ سے ان سے کم درجے کے ہوں، ان کو پونے دو کلو کے بجائے ساڑھے تین کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے، تاکہ تمام حدیثوں پر عمل ہو جائے، اور جو معاشی اعتبار سے ان سے بھی کم درجے کےہوں، ان کو پونے دو کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃالفطر ادا کریں، اس میں غرباء کا فائدہ ہے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل ہوجائے گا۔”
صدقۃ الفطر کا نظم و اہتمام:
احادیث و آثار کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر کے جمع و تقسیم کا قرون اولیٰ میں خاص نظم تھااور یہ بے ترتیبی اور بدنظمی نہ تھی،جو اس دور میں نظر آتی ہے،چنانچہ امام محمد امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو حضرت نافع رحمتہ اللہ علیہ نے خبردی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ صدقہ فطر کو دو یا تین دن قبل ہی اس شخص کے پاس بھیج دیتے تھے جس کے پاس صدقہ فطر جمع کیا جاتا تھا۔(مؤطا امام محمد 180) حضرت ایوب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ صدقہ فطر کب نکالتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب عامل جمع کرنے کے لیے بیٹھ جاتا، پھر میں نے پوچھا کہ عامل کب بیٹھتا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یوم عید سے ایک یا دو دن پہلے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کے پاس فطرہ جمع ہوتا تھا اور تقسیم کیا جاتا تھا بلکہ بعض شراح بخاری نے اس کی تشریح کردی ہے اور یہ لکھا ہے کہ جس کے پاس جمع ہوتا تھا وہ امام کا مقرر کردہ ہوتا تھا۔ (ضیاء البخاری)
نیز بخاری شریف کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ رمضان کی حفاظت کی خدمت میرے سپرد کی، جس سے بظاہرمراد صدقہ فطر ہے۔ صدقہ فطر کے وجوب کا منشا یہ ہے کہ اس روز کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے، اور نماز عید سے پہلے ہر شخص کھا پی لے،اس لیے بلحاظ تکمیل مقصد بہتر صورت یہ ہے کہ رمضان کے اندر ہی کم از کم علی الصباح نماز عید سے بہت پہلے ہر شخص اورہر گھرکا فطرہ ہر گاؤں ومحلہ میں ایک جگہ جمع کیا جائے اور فقراء مساکین و اہل حاجت میں تقسیم کیا جائے پھر اہل حاجت کو کم از کم ایک فطرہ کی مقدار دی جائے، اور در بدرگھومنے والے اور بھیک مانگنے والے فقراء بہت زیادہ ایسے ہوتے ہیں جو مالدار غنی ہوتے ہیں وہ پانے کے مستحق نہیں ہوتے ہیں ان کو دینے میں غیر مصرف میں خرچ ہونے کا اندیشہ ہے۔
صدقۃ الفطر کن لوگوں کو دیا جائے:
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ غیر مستحق اشخاص کو صدقہ فطر نہ دیا جائے،اگر دیا گیا تو صدقہ فطر ادا نہ ہوگا اور وجوب کی ذمہ داری کا سقوط نہیں ہوگا۔ شرعی مسائل نہ جاننے کی وجہ سے بعض لوگ غیر مستحقین کو صدقہ فطر دے دیا کرتے ہیں، اس سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا، سستائ کے زمانے میں نقد دینا بہتر اور گرانی(مہنگائی) کے زمانہ میں کھانے کی چیز دینا افضل ہے، صدقہ فطر فقراء و مستحقین کو رمضان سے پہلے یا رمضان میں ادا کر دے تو جائز ہے نیز عید گاہ جانے سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ ایک صدقہ فطر ایک محتاج کو دیا جائے ہاں بلحاظ ضرورت ایک محتاج کو چند آدمی کا صدقہ فطر بھی دیا جاسکتا ہے ۔

Comments are closed.