Baseerat Online News Portal

ہماری عیدکیسی ہونی چاہئے ؟

مفتی اصغر علی القاسمی
امام و خطیب مسجد نورانی پادرائن پورہ بنگلور
مذہب اسلام ایک’’ معتدل مذہب‘‘ ہے ،یہ اتنا خشک بھی نہیں کہ اپنے ماننے والوں کو خوشی کے موقعہ پر خوشی منانے کا موقع نہ دے۔ اوریہ اتنا آزاد ووسیع بھی نہیں کہ آدمی سارے اصول وقوانین سے آزاد ہوجائے ۔بلکہ اسلام نے اپنے ماننے والوںکے لئے ہر موقع کے لئے ایک اصول اور قانون مقرر کردیا ہے۔ لہٰذا خوشی کا موقع ہو یا غم کا موقع ، اگر اسلامی طریقے اور اصول شرع کو ملحوظ رکھاجائے تو انشاء اللہ ہم اجر وثواب کے مستحق بنیں گے ورنہ گنہگار ہوں گے ۔ یہ یاد رہے کہ مومن اور کافر کی عید میں یہی بنیادی فرق ہے کہ کافر ومشرک اپنی عید میں خوشی مناکر شیطان کو راضی کرتے ہیں اور ہم مسلمان اپنے رب کو راضی کرتے ہیں ۔کافروںکی عید سے شیطان خوش ہوتاہے اور مومنوں کی عید سے رحمن راضی ہوتا ہے ۔
آقائے مدنی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو فرشتے راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جا تے ہیں اور آواز لگاتے ہیں کہ اے اللہ کے بندو! آؤ اپنے کریم پرور دگار کی بارگاہ میںجو اپنے کرم واحسان سے (بندوں ) کو نیکیوں کی توفیق دیتاہے اور اس پر پھر اجر عظیم عطا فرماتا ہے ،تمہیں رات کی عبادت کا حکم ہوا تم نے وہ پورا کیا ،تمہیں دن کے روزوں کا حکم ہوا تم نے وہ بھی پورا کیا اور اپنے رب کی فرماںبرداری کر کے دکھایا۔اب اپنے انعامات لے جاؤ،پھر وہ جب نماز (عید ) سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ایک پکارنے والا آواز لگاتا ہے لوگو! یقینا تمہارے پروردگار نے تم سب کو بخش دیا ،پس جاؤ تم کامیاب و بامراد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔اس طرح یہ دن ’’یوم الجائزہ ‘‘ ہی ہے ۔الترغیب والترہیب ۲؍۳۸۸ بحوالہ مسائل عیدین وقربانی
اس حدیث شریف کے اندر آپؐ نے فرمایا کہ بلاشبہ عید کا دن’’ انعام وبدلہ ‘‘کا دن ہے۔ مگر کس کے لئے؟ تو فرمایا کہ انعام و بدلہ اس کے لئے ہے جس نے رمضان میں روزے رکھا ،تراویح پڑھی ،اعتکاف کیا،صدقہ فطراداکیا،اور ذکر واذکار میں اپنے آپ کو مشغول رکھا ۔ اور جس نے رمضان کی کوئی قدر نہیں کی اس کے لئے کوئی خوشی کادن نہیں اس کے لئے کوئی انعام و بدلہ نہیں ہے ۔ اس کے لئے عیدنہیں بلکہ وعید ہے۔
اصل عید کیا ہے؟
ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عید کے دن دیکھا اور عرض کیا’’ آج عید کا دن ہے اور آپ سوکھی روٹی تناول فرمارہے ہیں ؟ حضرت علی ؓ نے جواب دیا کہ آج عید اُن کی ہے جن کے روزے قبول ہوگئے ،جن کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور خدا نے جن کے گناہ بخش دیئے ۔مگر ہماری تو آج بھی وہی عید ہے جو کل ہوگی ۔یعنی جس دن آدمی گناہ نہ کرے وہ دن اس کے لئے حقیقی عید کا دن ہوتا ہے۔ غنیہ الطالبین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو روپڑے ،بیٹے نے کہا اباجان ! آپ کیوں رورہے ہیں ؟حضرت عمر ؓ نے فرمایا بیٹے !مجھے دل میں یہ خیا ل آیا کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پرانے ،پھٹے قمیص میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹو ٹ جائے گا ،بیٹے نے جواب دیا کہ دل تو اس کا ٹوٹے جو رضائے الٰہی کو نہ پاسکا ،جس نے ماں باپ کی نا فرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی راضی ہوگا ۔یہ سن کر حضرت عمر ؓ(فرط خوشی میں ) ر و پڑے، بیٹے کو گلے لگایا اور اس کے لئے دعاء کی۔ مکاشفۃ القلوب
ان دونوں واقعات سے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہئے کہ کیا ہمارا کوئی دن ایسا بھی گزرا ہے جس میں ہم نے کوئی گناہ نہ کیا ہو ،اور اللہ کی نافرمانی نہ کی ہو ۔یقین جانئے کہ جو دن ہمارا گناہوں سے محفوظ رہا وہ دن ہمارے لئے ’’اصل عید اور خوشی کا دن‘‘ ہے ۔
عیدالفطرکے چند ضروری مسائل
مسئلہ:عید گاہ جانے سے قبل اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کردے ۔
مسئلہ : عید گاہ تکبیرات کہتے ہوئے جائے عید الفطر میں آہستہ اور عید الاضحیٰ میں بلند آواز سے کہے ۔ تکبیرات: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
مسئلہ : طریقہ نماز عید:سب سے پہلے نیت کرے :نیت کی میںنے دو رکعت نماز عید الفطر واجب کی چھ زائد تکبروں کے سا تھ، واسطہ اللہ کے، پیچھے اس امام کے، منہ میرا قبلہ کی طرف ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے امام ومقتدی دونوں اپنے ہاتھ باندھ لیں۔ثناء پڑھنے کے بعد امام مسلسل تین تکبیریں کہے پہلی دو تکبیر وںمیں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، تیسری تکبیر میں ہاتھ کان تک اٹھا کر نہ چھوڑے بلکہ باندھ لے۔ پھر سورہ فاتحہ اور ضم سورہ کے بعد رکوع وسجود کرے ۔اس کے بعد جب دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو توپہلے سورہ فاتحہ او رکوئی سورۃ ملا لے اس کے بعد مسلسل امام تین تکبیریںکہے ہر تکبیر میں ہا تھوں کو کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دے ۔چوتھی (تکبیر انتقالیہ ) کہتے ہوئے رکوع میں چلاجائے اور حسب معمول نماز مکمل کرلے ۔پھر عربی خطہ پڑھے اور دعاء کرے۔
مسئلہ : نماز عیدین کے بعد دعاء کرنا مسنون ومستحب ہے۔فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۱۹۰
مسئلہ :خطبہ عید کا پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے ، مگراس کا سننا واجب ہے ۔اس وقت کلام وغیرہ کرنا اور شور وشغف کرنا سخت گناہ ہے۔امداد المفتیین
مسئلہ : اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو اگر دوسری جگہ جماعت میں شامل ہونا ممکن ہو تو جا کر شامل ہوجائے ( اکیلے نہیں پڑھ سکتا کیونکہ عیدین میں جماعت شرط ہے )اور اگر نہ جاسکتا ہو اور مجبور ہو تو اس کو چاہئے کہ چار رکعت چاشت کی نماز کی طرح اد اکرلے ،یہ نماز عید کی نہ ہوگی بلکہ چاشت کی نماز ہوگی۔ اس طرح ثواب میں جو کمی رہ گئی تھی اس کی کسی درجہ تلافی ہوجائے گی ،انشاء اللہ
۔در مختار ۱؍۷۹۵ عید کے دن گناہوں سے بچیں
حدیث شریف میں آتا ہے کہ رمضان میں سر کش شیا طین قید کردئے جاتے ہیں تاکہ وہ روزہ دار بندوں کو نہ بہکا سکیںاور اس کا احساس بھی ہمیں ہوتا ہے کہ بہت سے گناہ جس سے ہم عام مہینوں میں نہیں بچ پاتے ،رمضان میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں ۔مگر جیسے ہی رمضان ختم ہوتا ہے اور شیاطین آزاد ہوتے ہیں ہم گناہوں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
افسوس کہ ہمارے مسلم نوجوا ن عید کے دن چند گناہوں کوبڑی جرأت وجسارت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ان کو ان حرکتوں سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ کی طرف سے عتاب نہ اترجائے ۔مثلاً جس سنت رسول کو پورے مہینہ پابندی سے رکھا تھا عید کی صبح اپنے چہرہ سے صاف کر کے نالیوں میں بہا دینا۔ اسی طرح عید کے بعد بعض گھرانوں میںغیر محرم مرد وعورت کا آپس میں مصافحہ ومعانقہ کرنا، ۔اسی طرح عید کے دن مسلم نوجوانوں لڑکوںاور لڑکیوں کا فلم تھیٹرں ، اختلاط والی جگہوں مثلاً ہوٹلوں ،پارکوں اور عام تفریح گاہوں میں بے محابہ سیر وتفریح کے لئے جانا ،یہ تمام امور سخت حرام ہیں ۔

 

 

Comments are closed.