ہم اس ملک میں حصہ دار ہیں ،کرایہ دار نہیں

(وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس منعقدہ ۲۹؍جون ۲۰۲۵ء بروز اتوار،بمقام گاندھی میدان پٹنہ کا خطبہ استقبالیہ)
مفتی محمد سعیدالرحمٰن قاسمی
قائم مقام ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ ،جھارکھنڈو مغربی بنگال پھلواری شریف پٹنہ
آج کایہ تاریخی دن اورگاندھی میدان کایہ عظیم الشان اجتماع اس بات کی شہادت دے رہاہے کہ امت مسلمہ بیدار ہے ،زندہ ہے اوراپنی دینی وملی جائیداد ،اسلامی شناخت،اوراپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کوتیارہے،آپ کی یہاں حاضری نہ صرف وقف کی حفاظت کااعلان ہے بلکہ یہ ایمان کی پکارپرلبیک کہنے کا عملی مظاہرہ ہے۔
حضرات گرامی! آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز اور بہار کی تمام ملی تنظیموں کے مشترکہ تعاون سے ا مارت شرعیہ بہار،اڈیشہ،جھارکھنڈ ومغربی بنگال کی یہ کانفرنس وقف بچاؤ، دستور بچاؤ ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے جبکہ ملک کامسلمان دوراہے پرکھڑا ہے،ہم اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین،امارت شرعیہ اور بہار کی تمام ملی تنظیموں واداروں کے سربراہان ،خانقاہوں کے سجادگان وبزرگوں کی طرف سے آپ تمام فرزندان توحیداو ربرادران وطن کادل کی گہرائی سے استقبال و خیر مقدم کرتے ہیں اور شکریہ اداکرتے ہیںاورامید کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر ملت کے اس سفینہ کو پارلگانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیارکریں گے، اگر ہم نے اخلاص و للہیت،حوصلہ وہمت،حکمت وفراست اورجہدمسلسل سے کام کیاتو ان شاء اللہ ہماری کوششیںضرور کامیابی سے ہمکنار ہوںگی۔
حضرات سامعین! اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کوکئی طرح کے چیلنجز کاسامناہے ملک کی فرقہ پرست جماعتیں اور پارٹیاں اسلامی تہذیب وثقافت کوجڑسے مٹانے کےلئے مستقل منصوبے بنارہی ہیں ،بی جے پی حکومت کے گیارہ سالہ عہداقتدار کاہر سورج نئے فتنوں کے ساتھ طلوع ہوتاہے اور آگ کے شعلو ںکے ساتھ غروب ہوتاہے، جس سے ملک کاہرامن پسند شہری اپنے اندر گھٹن محسوس کررہاہے ،ایک طرف توہین رسالت ،ماب لنچنگ،درجنوں ہجومی تشدد،بلڈوزرکلچر کو فروغ ، بے قصور نوجوانوںاور دین کے داعیوں کوپابند سلاسل بنانے ،فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ بے گناہوں کو موت کی نیند سلادینے کاسلسلہ جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ظالم اور ظلم ڈھانے والوں کاایک بڑا طبقہ تیارہوگیاہے جس نے مختلف ناموں کی تنظیم تیاررکھی ہے،ظلم وستم ڈھانے کے لئے بہانےڈھونڈتی ہے،مسلمانوں کاخون بہاکر انہیں مزہ آتاہے ،مسلمانوںکی دوکانیں جلاکر انہیں خوشی محسوس ہوتی ہے ،ان کوبربادکرکے چین و سکون ملتاہے،ایس سی ایس ٹی کو موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،یہی ذہنیت آئین ہندسے کھلواڑ کررہی ہے ،دستور کوبدلناچاہتی ہے، پانی کی قیمت تو ہے لیکن انسانی جان کی کوئی حیثیت باقی نہیں ہے،قانون یہاں بے چارہ ہوکررہ گیاہے ۔
اسی طبقہ کے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعہ دل آزار اوراہانت آمیز پیغام بھیجتے ہیں ،اذان و نماز کوبند کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں،مسجدوں کو نقصان پہونچاتے ہیں،رسالت مآب ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہتے ہیں،مذہبی کتابوں کی توہین کرتےہیں ،قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اورملک کی بدقسمتی ہے کہ یہ حالات وہ لوگ پیداکررہے ہیں ،جن کے نمائندے حکمرانی کررہے ہیں۔
دوسری طرف قانون شریعت اوراسلامی ثقافت و شعائر اس کے نشانے پر ہیں،طلاق ثلاثہ کے عدم نفاذ،یکساں سول کوڈ کے لئے قانون سازی کے طریقے حتی کہ شہریت قانون این آر سی (NRC) کے نفاذ کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی اور اقلیتوں کو شک کے دائرے میں لانے کی جدوجہد چل رہی تھی کہ اسی درمیان مرکزی بی جے پی حکومت اکثریت کے زعم اوراقتدار کے نشہ میں اسلام کے نظام اوقاف پربڑی خاموشی اور عیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے، اس نے وقف ایکٹ ۲۵ پاس کرکے اوقافی جائدادوں کوہڑپنے کامنصوبہ بنایاہے جوکہ نہایت ہی خطرناک وتشویشناک ہے جس سے مسلمانان ھندمیں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر یہ قانون پورے طور پر نافذ ہوتاہے تونہ ہماری مسجدیں محفوظ رہیںگی نہ قبرستان، نہ خانقاہیں ،نہ امام باڑے،نہ مدارس ومکاتب، سب اس کی زد میں آجائیں گے جس سے براہ راست اسلامی وقف کامنشاہی فوت ہوجائے گا کیونکہ اسلام اوقافی نظام کے ذریعہ ملت اسلامیہ کو خود کفیل بناناچاہتاہےتاکہ اسکے ذریعہ سماج کے مصارف خیر اور اورجائز ضرورتوں کوپوری کرنے میں مدد مل سکے ،اسی لئے آزاد ی ہندسے پہلے انگریز حکومت نے اس کو خرد برد سے بچانےکے لئے ایک قانون وقف بنایا، پھر جب ملک آزاد ہواتو حکومت ہندنےاس قانون کو موثر بنانے کےلئے جدوجہد شروع کردی ،اورایک طویل مدت کے بعد ۱۹۹۵ء میں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ منظور کیاتاکہ اوقاف کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے ،اس قانون کو اثر دار بنانے کے لئے امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ ،جھارکھنڈومغربی کاکلیدی کردار رہاہے ،یہاں کےقائدین و عمائدین نے حضرت امیرشریعت رابع مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ،قاضی القضاہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ،حضرت مولاناسید نظام الدین صاحب ؒ،حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ،کی شب وروز کی کوششوں کے نتیجہ میںجوقانون وقف منظور ہو اوہ بہت حد تک اوقافی جائدادوں کے تحفظ کی ضمانت دیتاہے؛ گرچہ اس میں بھی کچھ خامیاں رہ گئیں اس وقت کی مرکزنے یقین دہانی کرائی کہ ابھی اس کو پاس ہونے دیا جائے بعد میں یہ خامیاں دورکردی جائیں گی؛ چنانچہ ۲۰۱۳ء میں وقف ایکٹ کی چندخامیاں دورہوئیںلیکن پھر بھی قابل اصلاح رہی،مگر ستم ظریفی کہئے کہ اس کے بعد مرکزپر بی جے پی برسر اقتدار ہوگئی اس نے اپنے خفیہ ایجنڈوں پر عمل کرنا شروع کردیا تاآنکہ ۳؍مارچ ۲۵ ء کو ایک نیا وقف قانو ن دونوں ایوانوں سے حزب مخالف کے اعتراضات کے باوجود پاس کرالیا اس نئے قانون کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت نے پورے ھوم ورک کے بعد اپنے پوشیدہ خطرناک عزائم کو پورا کرنے کے لئے اور وقف کے املاک پر اپنا شکنجہ کسنے کے لئےیہ نیاقانون بنایاہے اس نئے قانون میں وقف بائی یوزر (Waqf by User)کی حیثیت کوبالکل ختم کرکے پورے ملک کی نوے فیصد سے زائد املاک کو وقف سے نکال کر سرکار اور بڑی کمپنیوں کی تحویل میں دینے کے لئے ایک نئے فتنہ کو جنم دیدیا جس سے ملک میں طوائف الملوکی شروع ہونے کاخدشہ ہے،اس سے مساجد و مدارس اور قبرستان پر حکومت کاقبضہ ہوجائے گا، یہ بھی یاد رکھئے کہ اب تک وقف کے لئے کئی سطح پر مشتمل عدالتی نظام سے ہوتے ہوئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جانےکی گنجائش تھی مگرموجودہ وقف قانون نے عدالتوں کے سارے اختیار ات ضلع کلکٹر کو منتقل کردیا، ظاہرہے کہ ملک کاکوئی بھی کلکٹر حکومت کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے کی ہمت نہیںکرسکتا،یہ چند اشارےسمجھنے کےلئے دیئے گئے ہیں جن سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اب ہمیں مردے کودفن کرنے کے لئے یورپی ممالک کی طرح زمین خریدنی پڑ ے گی۔ بھلابتائیے کہ زمین ہماری ہے ،جس کو ہمارے آباواجداد نے خیروبھلائی کے کاموں کے لئے مخصوص کیاتھا ،اس کو ہماری حکومت ہڑپناچاہتی ہے، امارت شرعیہ اور ہم سب کے امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ نے روز اول سے ہی اس کے خلاف تحریک چلائی،جب یہ قانون بل کامسودہ تھااسی وقت سےحضرت اس کی خطرناکی سے عوام کوواقف کرارہے ہیں،انہوں نے اس کے لئے مذاکرے ،ورک شاپ منعقدکئے ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور لیڈروں سےمل کر نقائص واضح کئے، حتی کہ لاکمیشن سے بھی ملاقاتیں کیں ،پٹنہ،رانچی کٹک سے لے کر دہلی و بنگلور تک رائے عامہ ہموار کیا ،ڈی ایم کو میمورنڈم دیاگیا،مگر ،بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت، نہیںکام آتی دلیل او رحجت، آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ قانون پاس ہوگیا ،اس کے بعد بھی ہمارے اکابر خاموش نہیں بیٹھے جاگتے رہے جگاتے رہے ،پرامن احتجاجی دھرنے دئے گئے اور وہ سب کچھ کیا گیا جودستوری حق تھااس کے بعد ہمارے بزرگوں نےآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی تجویز کے مطابق دیگر ملی تنظیموں اور خانقاہوں کے مشورے سے ۲۹؍جون کوپٹنہ کے گاندھی میدان میں وقف بچاؤ دستوربچاؤ کانفرنس کافیصلہ کیا۔
بزرگان محترم ! یادرکھئے کہ ملک کے ۲۵ کروڑ مسلمان زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے نہیں ہیں کہ بی جے پی جو چاہے قانون بناکر ہم پر تھوپ دے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں، ہم آئین و دستور کی روشنی میں پوری قوت سے جواب دیںگے؛ کیونکہ ہم اس ملک کے حقدار ہیں کرایہ دار نہیں، اس کی تعمیر و ترقی میںہمارا حصہ دوسرے ابنائے وطن سے کم نہیں ہے ،اس کی آزادی کی جدجہد میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں ناقابل فرامو ش ہیں اس لئے ہم نےاپنے اسلامی تشخص و امتیاز ات کے ساتھ جینے اور مرنے کافیصلہ کیاہے،اگر کوئی ہماری شریعت کے ساتھ کھلواڑکرے گاتو ہم کسی بھی صورت میں اس کو برداشت نہیں کریں گے، اس لئے حکومت اس ظالمانہ کالے قانون کو فوراًواپس لے ورنہ مسلمان اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آخری حد تک جدجہد کرتے رہیں گے،مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں بھی اس امت پر نت نئے حالات پیش آئے ہیں لیکن انہوں نے دہشت و خوف کے ماحول سے نکل کرناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کیا،تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی مگریہ امت بزدلی کی شکار نہیں ہوئی بلکہ جم کر اور ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تاتاریوں کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ،جغرافیہ بدلتارہامگر حالات وہی رہے لہٰذا ہم بھی موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں خوف ودہشت کے ماحول سے نکل کر ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے مضبوط لائحہ عمل تیار کریں۔
یادرکھئے! وقف صرف زمین اورعمارت کانام نہیں،یہ ہماراایمان ہے،یہ ہماری تہذیب ہے،یہ ہماری آنے والی نسلوں کی امانت ہے،آج اگر ہم خاموش رہے تونہ صرف وقف کی زمینیں چھنیں گی بلکہ ہماری شریعت ،ہماری شناخت،ہماری تہذیب،ہمارے دینی ادارے بھی مٹتے چلے جائیں گے ،پھر ہمارانام ونشان بھی باقی نہیں رہے گا ۔
آئیے! آج کے اس تاریخ ساز اجتماع میں ہم عہد کریں کہ ہم اوقاف کی حفاظت کے لئے ہرمیدان میں کھڑے ہوں گے ،ہم شریعت میں مداخلت کوکسی حال میں قبول نہیں کریں گے،اپنی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ، ظلم کے خلاف صف واحد بن کر آواز بلند کریں گے ۔
اب آخر میں صدرجلسہ حضرت امیر شریعت کاشکریہ اد اکرتاہوں جن کو اللہ نے فکر ارجمند اور دل در مند سے نواز ا ہے،میں مسلم پرسنل لا بورڈ،ملی اداروں،خانقاہوں، مدارس کے ذمہ داروں،دانشواروں ،صحافیوں ،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے ذمہ داروں ،پولیس انتظامیہ، امارت شرعیہ کے تمام ذمہ داران ،کارکنان،تنظیم امارت شرعیہ کے ذمہ داران و نقباء وائمہ مساجدکاشکریہ اداکرتاہوں ،نیزشہر پٹنہ کے دینی حمیت رکھنے والے مسلمانوں کابھی شکریہ اداکرتاہوں کہ بہار،اڈیشہ ،جھارکھنڈ ومغربی بنگال اور ملک کے گوشہ گوشہ سے تشریف لانے والوں کی ضیافت میں اپنے دل کے دروازے کھول دئے اسی طرح تما م معاونین و رضاکار ان،دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی جامعہ رحمانی مونگیر،رحمانی تھرٹی اور امارت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے اساتذہ وطلبہ، مولاناسجاد ھاسپیٹل کے تمام حضرات ،خصوصاًاجلاس کے کنوینر مولانااحمد حسین قاسمی معاون ناظم امارت شرعیہ بھی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ ان حضرات کی کدوکاوش سے یہ عظیم الشان کامیاب کانفرنس منعقد ہوئی،اللہ تعالیٰ آپ سب کو بہتر سے بہتر اجر عطافرمائے ۔
Comments are closed.