Baseerat Online News Portal

عید الفطر

 

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی 9826268925

عید کا دن رمضان المبارک کے روزوں کے پورے ہونے پر اللہ رب العزت سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ مسرت و شادمانی کا موقع کیا ہو سکتاہے؟ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں اس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ "عید کا لفظ "عود” سے مشتق ہے، جس کے معنی "لوٹنا” کے ہیں‌ ۔ یعنی عید ہر سال لوٹتی ہے، اس کے لوٹ آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اور”فطر” کے معنیٰ روزہ توڑنے یا ختم کرنے، کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اوراس دن اللہ تعالیٰ بندوں کو عبادات رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں،تو اسی مناسبت سے اسے عید الفطر قرار دیا گیا۔

انعام الہی کا دن:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ "جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو تمام شہروں اور گاؤں میں بھیج دیتےہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے ٹکڑوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پکارتے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس رب کریم کی بارگاہ میں چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصوروں (گناہوں) کو معاف کرنے والا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرتا ہے۔ اس مزدور کا جو اپنے ذمہ کا پورا کام کر چکا ہے۔ کیا بدلا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے۔اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی، اور بندوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ۔ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میرے جلال کی قسم اور میری عزت کی قسم! آج کے دن اس اجتماع (عید گاہ) میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو بھی سوال کرو گے۔ اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھو گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال کرو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا اور ان کو راز میں رکھوں گا۔ میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم، تمہیں مجرموں (کافروں) کے سامنے رسوا اور ذلیل نہیں کروں گا۔بس اب بخشے بخشاۓاپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے راضی ہو گیا۔

یہ انعام درحقیقت ان خوش نصیب مسلمانوں کے لیے ہے جنہوں نے رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے ہیں اور تراویح کا اہتمام کیا ہے، طبیعتوں کو نیکیوں کا خوگر بنایا ہے، قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے، گناہوں پر نادم ہوا ہے اور سچی توبہ کی ہے، راتوں کو نرم و گرم بستروں سے اٹھ کر وضو کیا ہے اور اللہ کو منانے میں اپنی ساری قوت صرف کر دی ہے۔ جی و جان سے عبادت کی ہے اوران تمام حقوق کی ادائیگی میں سرگرداں رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کی ہیں۔ یہی لوگ درحقیقت اس لائق ہیں کہ وہ اللہ رب العزت سے اس دن کا انعام حاصل کریں اوراس انعام خداوندی سے بھرپور طریقے پر فائدہ اٹھائیں۔

مسلمانوں کے دو اسلامی تہوار:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے رہنے والے لوگ دو دن بطور تہوار بناتے اور ان میں کھیل تماشا کرتے تھے۔ایک "نوروز” اور دوسرے”مہرجان” اور اسے بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا "یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا "ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے قبل) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔”یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادئیے ہیں، یوم "عید الفطر” اور یوم "عید الاضحٰی”(ابوداؤد)

اسلام میں دو ہی تہوار ہیں: ایک عید الفطر اوردوسرا عید الاضحٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ان لکل قوم عیدا وھذا عیدنا (صحیح بخاری، رقم الحدیث:3931) بے شک ہر قوم کی عید ہے اور یہ عید الفطر اور عید الاضحٰی ہماری عیدیں ہیں-” اس حدیث مبارک میں جہاں مسلمانوں کے لیے "عید” کی تعین کر دی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے تہواروں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ اگر یہ فرق ملحوظ نہ ہوتا تو الگ طور پر عیدین کے ایام مقرر کرنے کی بجائے سابقہ اقوام و ملل کی عیدوں میں سے کسی ایک دن کو مسلمانوں کے لیے بطور تہوار منتخب کر لیا جاتا۔

فرحت ومسرت کاروح پرور تہوار:

عید الفطر امت مسلمہ کے لئے انتہائی پرمسرت و با برکت موقع ہے۔ اس دن اللہ رب العزت کی جانب سے بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بندوں کو بہتر انعام اور بدلہ عطا فرمایا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ انعام کی رات لیا جاتا ہے۔

درحقیقت یہی ہے عبدیت جو ایک مومن بندہ کو انعام کے طور پر ملتی ہے، حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عید درحقیقت ایک قدرتی پھل ہے، رمضان کے درخت کا، اگر رمضان کا درخت نہیں ہے اور اس کی تمام خصوصیات کے ساتھ نہیں ہے، وہ درخت شاداب نہیں ہے اور اس درخت کی تمام جڑیں محفوظ نہیں ہیں تو اس درخت سے کبھی پھل پیدا نہیں ہو سکتا اور اسے پھل کا کوئی استحقاق نہیں ہو سکتا، وہ شخص جو کوئی درخت نہ لگاۓ،اس درخت پر محنت نہ کرے اور اس کو پانی نہ دے، اس کو اس درخت کے پھل کھانے کا کوئی استحقاق نہیں ہے اور یہ اس کی خام خیالی ہے کہ بے درخت کے اس کو پھل مل جائیں گے، ایسے ہی رمضان کے بغیر عید کا کوئی استحقاق نہیں، بالکل یہ ایک غیر قدرتی غیر اخلاقی چیز ہے، عید ہے رمضان کا ثمرہ، عید ہے رمضان کا انعام، عید ہے رمضان کے درخت کا آخری شگوفہ، درخت نہیں تو شگوفہ کیا اور پھل کیااور پھول کیا،اس طریقے سے رمضان اور عید ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جیسے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔

عید کی حکمتیں:

علمائے دین و بزرگان دین نے عید کی بڑی حکمتیں بیان کی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے عیدین کی مشروعیت کی حکمت و فوائد کے سلسلے میں بیان کیا ہے ” ہر ملت کے لیے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے، جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں، تاکہ ان کی شان و شوکت اور کثرت تعداد ظاہر ہو”(حجۃ اللہ البالغہ)

اسی طرح مسلمانوں کی عید کا فلسفہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر، مناجات و دعا، ایثار و قربانی اور باہمی اتحاد و یکجہتی ہے، نہ کہ محض خوشی طرب جو روحانیت سے خالی ہو۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:” جن ایام کو اسلام نے تہوار کے لیے مقرر فرمایا، ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آ کر ختم ہو چکا ہو، بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قرار دیا، جو ہر سال پیش آتے ہیں اور ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں عیدین ایسے موقع پر مقرر فرمائی، جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں، چنانچہ عید الفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میرے بندے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے، اس کی خوشی انعام میں یہ عید الفطر مقرر فرمائی اور عید الاضحٰی ایسے موقع پر مقرر فرمائی جب مسلمان ایک دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں۔” (اصلاحی خطبات صفحہ 90 جلد 12) عیدین کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ”عیدالفطراورعیدالاضحی جو شارع نے انسانی فطرت کی تسکین اورحقیقت کے اعتراف کے طور پر مسلمانوں کو عطا کی ہیں، یکسر دینی اور روحانی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ دنیا کی تمام قوموں اور ملتوں میں میں سالانہ تہوار اور تقریبیں آزادی وبے قیدی اور لذت وتعیش کے دن مانے گئے ہیں، بے حیائی اور بے شرمی، لذت و ہوس، لہوولعب، اور سیروتفریح کا مبالغہ آمیز رجحان ان کا شعار اور ان کی تقریبات کا موضوع بن گیا ہے یہاں تک کہ یہ تہوار عبادت کے معنی و مفہوم کے بالکل مخالف سنجیدگی و متانت سے عاری خشوع وانابت سے یکسر خالی ہو گئے ہیں۔”(ارکان اربعہ) یعنی مسلمانوں کو عطا ہونے والی دونوں عیدیں انسانی فطرت کی عکاس ہیں اور روحانی تسکین کا ذریعہ ہیں، دراصل انسانی فطرت ہے کہ کبھی کبھی زندگی میں ایسے موقع بھی انسان کو میسر ہوں، جن میں قلبی طور پر وہ خوش ہوں اور اس کا اظہار کر سکیں، اسلام کیوں کہ دین فطرت ہے، اس لئے انسانی فطرت کے تقاضے کی تکمیل کے لئے اسلام نے مسلمانوں کو عیدین کا تحفہ عطا کیا، مگر خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان آپے سے باہر ہو جائے اور اس کی خوشیاں محض نفسانی یا ذہنی تسکین کا ذریعہ بن جائیں،بلکہ اصل ان مواقع پر روح کی تسکین ہے، اسی لئے ان خوشی کے مواقع پر دوگانہ نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی۔عیدگاہ میں جب یہ دوگانہ ادا کی جاتی ہے تو اس وقت وہاں اونچ نیچ امیر، غریب اور حاکم و محکوم کے تمام امتیازات مٹ چکے ہوتے ہیں، سب ایک مقصد کے لیے اللہ کے حضور کھڑے دعا و مناجات میں لگے رہتے ہیں، ہم وہاں اتحاد عمل اور اتحاد فکر کا ایسا منظر دیکھتے ہیں، جس کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی،شریعت اسلام نے مسلمانوں کو ہدایت دی کہ عید کے دن اسراف اور فضول خرچی سے بچیں،آرائش کا سامان،زرق برق پوشاک اور چٹ پٹی غذائیں اور خوش ذائقہ کھانے مہیا کرنے کے لیے قرض ہرگز نہ لیں کیونکہ خوشی و مسرت آرائش و زیبائش کے سامانوں میں نہیں ہے اگر دل مسرور ہے تو بوسیدہ لباس میں بھی فرحت و انبساط کی کیفیت پیدا ہوگی،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی نے عید کے دن پیوند لگے کپڑے پہنے اور خشک روٹی کھاتے دیکھ کر اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ لباس اور غذا کا نام عید نہیں جس دن ہم سے گناہ نہ ہو،وہی ہمای عید ہے۔حضرت وہب بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ عید کے دن روتے ہوئے فرماتے تھے کہ یہ مسرت وزینت کا دن اس شخص کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوں۔ لیس العید لبس الجدید، انماالعید لمن خاف الوعید عید اس کی نہیں ہے جس نے نۓ لباس پہنا، عید صرف اس کی ہے جو وعید سے ڈرا۔

حضرت عمر ابن العزیز رحمۃاللہ علیہ کی عید:

حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نماز عید کے بعد گھر تشریف لائے تو بیٹیاں عید کی مبارکباد دینے کے لیے حاضر ہوئیں، حیرت کی بات یہ کہ انہوں نے اپنے منہ دوپٹے سے ڈھکے ہوئے تھے امیر المؤمنین رحمتہ اللہ علیہ نے حیران ہوکر پوچھا کے بیٹا کیا بات ہے؟

بیٹی نے جواب دیا کہ ابا جان آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اس لئے صرف پیاز کھایا ہے جس کی بو منہ میں موجود ہے مجھے اچھا نہیں لگا اس بو سے آپ کو تکلیف ہو یہ سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمانے لگے بیٹا! میں چند دن کی زندگی کے لئے ہمیشہ کی آخرت برباد نہیں کر سکتا اور نہ تمہیں حرام لقمہ کھلانا چاہتا ہوں۔

ایک دفعہ عید الفطر سے چند دن پہلے آپ کی اہلیہ نے کہا کہ عید کے دن سب لوگ عمدہ سے عمدہ لباس پہنیں گے، لیکن ہمارے بچوں کے پاس معمولی کپڑے ہیں، مجھے نہایت شرم آتی ہے کہ امیر المؤمنین کی اولاد عید کے دن بھی اس قسم کے کپڑے پہنے۔ اس موقع پر حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مہتمم بیت المال کو ایک رقعہ لکھا کہ میرا ایک ماہ کا کا وظیفہ پیشگی دے دیجئے۔

اس نے رقعہ کی پشت پر یہ الفاظ لکھ کر کے واپس بھیج دیا: "امیرالمؤمنین کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے-” یہ الفاظ پڑھ کر حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ اشکبار ہو گئے اور اہلیہ سے کہا: ہمارے بچوں کو جنت میں عمدہ پوشاک ملے گی، اس لیے یہاں عمدہ لباس کی ضرورت نہیں۔ اسلامی تہوار کا مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں صالحیت وحدانیت اور خدا پرستی کا نظام برپا ہو جائے،لذت پسندی، لطف اندوزی، اور مبالغہ آمیزی کا اسلامی عبادت میں کوئی تصور نہیں ہے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج مسلمان اپنے اس بلند منصب کو بھول گئے جس سے وہ ساری دنیا کی قیادت و سیادت کے مالک تھے، انہوں نے بھی عید کو دوسری قوموں کے تہوار کی طرح ایک میلا بنالیا۔ جس میں رسم تو ہے لیکن اسلامی روح مفقود ہے۔

عید کا پیغام امت مسلمہ کے نام:

ادھر چند دنوں سے ملک کی بیشتر ریاستوں میں فرقہ وارانہ خیر سگالی کے ماحول کو خراب کرنے کی شرپسند جماعتوں و تنظیموں کی طرف سے ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور مختلف بہانوں سے فرقہ وارانہ امن کو تہس نہس کر دینے کی کی جملہ کوششیں ہو رہی ہیں جن کی مثالیں راجستھان،مدھیہ پردیش،کرناٹک، گجرات، دہلی،یوپی، مہاراشٹر، بہار، اور جھاڑ کھنڈ ہیں۔لہذا ملک کی موجودہ سیاسی، سماجی، ثقافتی اور فرقہ وارانہ یکجہتی کو نقصان پہنچانے والی کوششوں کے درمیان بحیثیت خیر امت ہمیں اپنا مؤثر کردار نبھانے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو صرف عدل و انصاف اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی کی بلندی پر چہاردانگ عالم میں متعارف و مشہور ہوا، امن وامان، چین و سکون، آپسی مساوات، بھائی چارگی سے بھرپور اپنی بہترین تعلیمات و کردار کی وجہ سے خلق خدا کے دلوں کو گھر کر گیا۔لہذااس عید کے موقع سے جو خصوصی اپیل آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے لیٹر پیڈ پرجاری کی ہے،ان نکات کو ملحوظ رکھتے ہوئے امت مسلمہ کو عید الفطر منانے کی ضرورت ہے۔

عیدالفطر کے دن نماز عید اداکرنے سے پہلے اس دن کی سب سے اہم عبادت صدقۃ الفطر ادا کرنا ہے لہذا عید گاہ جانے سے پہلے صدقۃ الفطر ضرور ادا کردیں۔

عیدالفطر کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ ہم اس اس عید کے موقع سےجس طرح غسل کرکے نیا لباس پہنتے ہیں اسی طرح اپنی روح کو بھی غسل دے کر اچھا لباس پہنانے کی فکر کریں۔

روح کا غسل اور اس کا لباس کیا ہے؟روح کا غسل ہےدل سے توبہ، اور اس کا لباس ہے تقوی جسے قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔”لباس التقویٰ ذالک خیر‌۔ یہ جسمانی لباس کے مقابلے میں بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔

ہمیں دو کام کرنے ہیں ایک "توبہ” اور دوسرا "تقوی” توبہ کیا ہے! وہ یہ کہ ہم سے اب تک جو گناہ ہوئے سچے دل سے ہم اللہ سے اپنے گناہوں کے لئے معافی مانگیں اور دل سے یہ ارادہ کریں کہ آئندہ ان سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ تقوی اس چیز کا نام ہے کہ اس فکر کے ساتھ زندگی گزارنا کہ اللہ دیکھ رہا ہےاور مرنے کے بعد ساری زندگی کا حساب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ماہ صیام کے گزرنے کے بعد بھی آنے والے دنوں میں اپنی رحمتوں سے فیضیاب کرے۔

تقبل اللہ منا ومنک ۔اللہ ہمارے اور تمہارے اعمال قبول کرے۔ آمین۔

Comments are closed.