کانوینٹ، اسلامی اسکول یا ہمارے اسکول؟

تحریر: توصیف احمد
کانوینٹ کے مفاسد ومضرات پہ گفتگو تحصیل حاصل ہے، کیوں کہ سبھی واقف ہیں، اسی کے ساتھ دیگر عصری اسکولوں کو شامل کر لیں، ظاہر ہے نصاب میں شرک کا جو زہر گھولا گیا ہے اس سے بچ پانا آسان نہیں، اس کا متبادل یا تو اسلامی اسکول ہیں یا ہمارے اسکول، لیکن سب سے پہلے گفتگو کرتے ہیں کہ متبادل اسکول کی شکل میں تلاش کرنے کی کیوں ضرورت ہے، اور اسلامی اسکول اور ہمارے اسکولوں میں کیا فرق ہے؟
اسکول ہی متبادل کیوں؟
ہمارے پاس مدرسہ سب سے بہتر متبادل ہے، اس کے باوجود اسکول کی ضرورت اس لیے ہے کیوں کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی تعداد ہی مدرسے کا رخ کر رہی ہے، باقی سب اسکول جاتے ہیں، یا تو کانوینٹ، یا سرکاری، یا دیگر پرائیوٹ اسکول، لہذا ان بچوں کے لیے ایسا متبادل ضروری ہے جہاں ایمان واسلام نہ صرف یہ کہ محفوظ ہو بل کہ اسلام کے مزید قریب کیا جائے، ساتھ ہی کم پیسوں میں بہترین تعلیم کا بند وبست کیا جائے، تاکہ دین داری کے ساتھ مسلمانوں کے بچے دنیاوی میدانوں میں پہنچیں، اب یا تو اسلامی اسکول قائم کیے جائیں یا ہمارے اسکول۔
اسلامی اسکول
اسکول چوں کہ گورنمنٹ کے ساتھ ملحق ہوگا تو بنیادی مضامین تو وہی پڑھانے ہوں گے جن کو گورنمنٹ میں ضروری قرار دیا ہے، جیسے انگلش، ہندی، سائنس، جغرافیہ، ریاضی، تاریخ وغیرہ وغیرہ، تاہم ان کے ساتھ چند اسلامی مضامین بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جیسے قرآن شریف، احادیث یاد کرانا، دعائیں سکھانا، کچھ ضروری فقہی اور عقائدی مسائل، یا دعائیں وغیرہ، اسکول کا ذریعہ تعلیم (میڈیم) اردو بھی ہو سکتا ہے، اور انگلش بھی، ساتھ ہی زبان کے خانے میں اردو پڑھا سکتے ہیں، سبھی جانتے ہیں، ان کا مقصد وہ مشہور نعرہ ہرگز نہیں ہو سکتا "ایک شخص عالم بھی اور ڈاکٹر بھی” کیوں کہ یہ اس زمانے میں غیر سنجیدہ نعرہ ہے، البتہ ایسا ضرور ہو سکتا ہے ایک بچہ اگر ڈاکٹر بنے گا آگے چل کے تب بھی وہ ضروریات دین سے واقف ضرور ہوگا، اہل علم سے رابطہ رکھے گا، دینی مجلسوں میں بیٹھے گا، یا اگر وہ دینی مدارس کا رخ کرتا ہے اگلی پڑھائی کے لیے تو وہ عالم دین ہوگا، ساتھ ہی انگلش، سائنس، جغرافیہ، میتھ وغیرہ جیسی ضروری چیزیں اس کی جیب میں ہوں گی۔
ہمارے اسکول
یہ مکمل طور پہ دنیاوی تعلیم فراہم کرنے والے اسکول ہو سکتے ہیں، جن کی نگرانی، اور ذمہ داری سنجیدہ اہل علم کے ہاتھوں میں ہو، جن کے نصاب میں چاہے دینی مضامین نہ ہوں؛ البتہ اساتذہ، اسکول کے ذمے داران دینی وایمانی رنگ میں رنگے ہوں، (خاص طور سے علمائے دین کی سرپرستی حاصل ہو) موقع بموقع تربیتی پروگرام ہوں، اور اساتذہ دینی وایمانی رنگ میں ان کو رنگنے کی کوشش کریں، ایسے طلبہ کو براہ راست تو نہیں، البتہ بالواسطہ دین کے ساتھ کامیابی کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔
یہ دونوں متبادل موقع محل کی مناسبت سے رو بہ عمل لائے جا سکتے ہیں، اور امت کے نونہالوں کو ایک طرف تو ناخواندگی سے جب کہ دوسری طرف شرک سے محفوظ رکھنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔
اسکول قائم کرنے کے لیے مدارس کے ساتھ سمجھوتے کی ضرورت نہیں ہے، بل کہ جن کے پاس وسعت ہے وہ ایک مدرسہ اور اسکول چلا سکتے ہیں، یا وہ علما جن کے کاندھوں پہ کسی ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے، اور متمول اہل خیر کے ساتھ مل کے یہ کام شروع کر سکتے ہیں تو ضرور کرنا چاہیے، میری رائے میں ایسے اسکول مدارس کے لیے معاون ہوں گے، یہاں بہت سے طلبہ میں دین سیکھنے کا شوق پیدا ہوگا، جو مدارس کا رخ کریں گے، کم از کم علم دین کی، اور علمائے دین کی قدر دان نسل پیدا ہوگی۔
میں نے علما کی سرکردگی، سرپرستی، یا نگرانی کو اس لیے اہم سمجھا (بالخصوص مخلص علما کی) تاکہ شرعی دائروں میں چلایا جا سکے، مفاسد، اور فتنوں سے بچتے ہوئے دین کی صحیح رہنمائی فراہم کی جا سکے، ورنہ عامیان حدود وقیود کی رعایت نہیں کر پاتے؛ بسا اوقات مقصد فوت ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔
اس کے لیے زیادہ جھمیلے کی ضرورت نہیں، اگر جاننا ہے کیا پورا خاکہ ہو سکتا ہے، کس طرح اور کیسے آسانی سے آغاز کیا جا سکتا ہے، کمینٹ کریں، اگلی پوسٹ میں وہ مختصرا لکھ دوں گا ان شاءاللہ، ویسے بہت لوگ جانتے ہوں گے، زیادہ مشکل نہیں ہے۔
Comments are closed.