Baseerat Online News Portal

الیکٹرانک میڈیا ایک مؤثر ترین ہتھیار!

 

لقمان عثمانی

مخالف قوتوں نے جب دینِ متین کے پھیلتے ہوئے بال و پر کو تیر و تلوار سے کترنے کی احمقانہ کوششیں کیں تو سر فروشانِ اسلام نے تیر و تلوار سے ہی ان کا مقابلہ کرکے ان کے ناپاک عزائم کو ملیامیٹ کردیا اور جب قلم کے ذریعے اسلام کے صاف و شفاف ماتھے پر نت نئے اعتراضات کی کالک لگا کر اور دینِ حق کی ابدی حقانیت میں شکوک و شبہات کا بیج بو کر اس کی بنیاد کو متزلزل کرنا چاہا تو میدانِ علم و قلم کے شہسواران نے اسی طور پر احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دیا؛ چناں چہ تلوار ہو کہ قلم، دونوں ہی ایسے طاقتور ہتھیار ہیں جنہوں نے ترویجِ دین، اشاعتِ علم اور اعلائے کلمۃ اللہ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ہر دو میدان کے رجالِ کار نے اپنے اپنے حصے کا فریضہ انجام دیا تب کہیں جاکر یہ دین اپنی اصل ہیئت میں ہم تک پہنچ سکا اور انہی اسلاف کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں ہم مختلف علوم و فنون کے سرمایۂ گراں مایہ کے وارث بن پائے؛ غرضیکہ جس محاذ پر جس ہتھیار کی ضرورت تھی اسی ہتھیار کا استعمال کرکے نہ صرف یہ کہ اسلام کا مکمل دفاع کیا بلکہ اس کے آفاقی پیغام سے دنیا کو روشناس بھی کرایا…… لیکن اب اس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں ہمیں ذرہ برابر بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ دنیا علمی سے زیادہ فلمی بنتی جا رہی ہے، کہ لوگ اب پڑھنے سے زیادہ دیکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی آفتابِ نیم روز کی طرح واضح و روشن ہے کہ جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں اس کا نقش ذہن و قلب میں اس طرح مرتسم ہوجاتا ہے کہ اس کے مثبت و منفی اثرات ہماری ذاتی و سماجی زندگی پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں ـ
میں سمجھتا ہوں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں—جب کہ تیر و تلوار کی جگہ توپ و بندوق نے لے لی اور قرطاس و قلم کے استعمال کی بجائے کمپیوٹر و موبائل جیسی اشیا کو ترجیح دی جانے لگی— اگر الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں ذرائعِ ابلاغ کا ایک اور بہترین و تیز ترین طریقہ ایجاد ہوکر مقبولیتِ عام و خاص حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ہمیں دوسری تجدیدات کی طرح اس کا بھی استقبال کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ـ
در حقیقت یہ بھی تیر و تلوار اور قلم و قرطاس کی طرح ایک ہتھیار ہی ہے جس کا ہم اپنے مقصد کی تکمیل میں درست استعمال کرکے نہ صرف یہ کہ بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اشاعتِ دین و اعلائے کلمۃ اللہ میں اپنے اسلاف کے شاندار ماضی کو دہراتے ہوئے حال کی بدحالیوں سے نکل کر تابناک مستقبل کی شاہراہ بھی تعمیر کر سکتے ہیں ـ
الیکٹرانک میڈیا کو اپنے مقصد کی تکمیل میں استعمال کرنے کی بھی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں جن میں تین اہم ترین شکلوں کو بیان کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے:

(۱) میڈیا ہاؤس کا قیام
ہمارے ملکِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہاں پہلے تو مسلمانوں کے گھر بار کو مسمار کیا جاتا ہے، ان پر ظلم و زیادتی کا رویہ اپنا جاتا ہے، ان کی عورتوں کے آبگینۂ عفت کو چور چور کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور شعارِ اسلام کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے؛ لیکن اگر مسلمانوں کے ردِ عمل کا کوئی ادنی واقعہ بھی پیش آجائے تو ہمارے یہاں کی گودی میڈیا اپنی تمام تر بد بختیوں پر پردہ ڈال کر مسلمانوں کو ہی بطورِ ولن پیش کرکے عام لوگوں کے دلوں میں نفرت کا شعلہ بھڑکانے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہوجاتی ہے؛ تا آں کہ بعض سادہ لوح مسلمان بھی انہی جعلسازیوں پر ایمان لاکر دشمنوں کی ہمدردی میں گُھلنے لگتے ہیں؛ گویا کہ:
دیکھتے کچھ ہیں، دکھاتے ہمیں کچھ ہیں، کہ یہاں
کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ
ظاہر ہے کہ جب ہم نے غیروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانے کو کافی سمجھ لیا اور گنگنا جمنی تہذیب کا راگ الاپنے کا ٹھیکہ اپنے سر لے لیا تو پھر شاید ہم اسی سلوک کے مستحق ہیں ـ
میڈیا کسی بھی جمہوری ملک کے لیے چار ستونوں میں سے ایک اہم ترین ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کی طاقت سے پورے ملک کا رخ پھیرا اور جس کی مدد سے لوگوں کے سوچنے کا زاویہ بدلا جاسکتا ہے؛ تا آں کہ تحریکِ آزادیِ ہند میں پرنٹ میڈیا و صحافت کا بھی بنیادی کردار رہا ہے اور اس مقصد کے لیے مخلتف ادوار میں مختلف شہروں سے کتنے ہی اخبارات نکالے گئے؛ چناں چہ مولوی محمد باقر شہید کا ”دہلی اردو اخبار“ ، مولانا ظفر علی خاں کا ”زمیندار“ ، مولانا حسرت موہانی کا “اردوئے معلی“ ، مولانا محمد علی جوہر کا ”ہمدرد“ اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ”الہلال“ اور ”البلاغ“ اسی سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں جنہوں نے ہندوستانیوں کے دلوں میں نئی امنگ اور ترنگ کے ساتھ تحریکِ آزادی کا صور پھونکنے کا کام کیا تھا، میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں ہندوستانی حکومت کی ہر محاذ پر ناکامی کو بتانے، نت نئی سازشوں کی حقیقت کو واشگاف کرنے اور مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈوں سے دنیا کو واقف کرانے میں الیکٹرانک میڈیا اس سے کہیں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہے؛ تو پھر کوئی جواز نہیں بنتا کہ تمام تر اسباب مہیا ہونے کے باوجود ہم اس اہم ترین محاذ پر اپنے ہونے کا احساس دلانے سے بھی قاصر رہیں؛ بلکہ ضروری ہے کہ اپنا ایک میڈیا ہاؤس قائم کیا جائے اور جمعیت علمائے ہند جیسی نمائندہ تنظیم اس کا بیڑا اٹھائے تاکہ اس کے اثرات بھی دور رس ہوں اور اس کے نتیجے بھی تابندہ و پائندہ ہوں ـ

(۲) اسلامی تاریخ پر مبنی فلم سازی کا اہتمام
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی قباحت کا عنصر ہماری میزانِ فکر و نظر پہ اس طرح غالب آجاتا ہے کہ ہم صرف اس کے مشمولات کو برا سمجھنے کی بجائے نفسِ شئی کو ہی غلط تصور کرلیتے ہیں؛ جس کی وجہ سے ہمارا ذہن اس کے دوسرے پہلوؤں کے تئیں سوچنے اور اس کے مشمولات کی نوعیت بدل جانے کی صورت میں بھی اس کے حکم پر نظرِ ثانی کرنے سے انکار کر دیتا ہے، یہ اور بات کہ وہ اپنے اندر تمام تر مفاسد کو سمیٹے ہونے کے باوجود عوام تو کیا خواص میں بھی اس حد تک رواج پا چکی ہوتی ہیں کہ ہمارا معزز سمجھا جانے والا طبقہ بھی اس میں ملوث نظر آتا ہے ـ
یہ اچھی بات ہے کہ لوگ اپنی تلویث کو بے جا تاویلات کے ذریعے جواز کی بنیاد فراہم نہ کرکے کم از کم اپنے سینے میں احساسِ گناہ کی نعمت کو باقی رکھ پاتے ہیں جس کی بہ دولت توبہ کی توفیق بھی سلب ہونے سے محفوظ رہتی ہے؛ لیکن اس اعترافِ حقیقت سے منہ موڑ لینا بھی کوئی دانشمندی نہیں کہ جب کسی چیز کی حیثیت بدل جائے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے؛ چناں چہ جن ڈراموں اور فلموں کے ذریعے عریانیت و فحاشیت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور کتنے ہی شفاف ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے؛ اگر ان کی حیثیت بدل دی جائے اور انہیں فلموں کو اپنے دینی مقاصد کی تکمیل میں بہ طور ہتھیار استعمال کیا جائے تو بجا طور پر اس کا حکم بھی بدل جائے گا ـ
ہمارے پاس سوائے کفِ افسوس ملنے اور دم توڑتی نام نہاد جمہوریت پر آنسو بہانے کے اور کوئی چارہ نہیں بچتا جب ایک طرف مسلم حکمرانوں کی تاریخ اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیوں کے تذکرے کو نصابوں سے خارج کردیا جاتا ہے تاکہ نوخیز ذہنوں کو اپنی تاریخ سے نابلد رکھ کر احساسِ ماتحتی و کمتری کی کھائی میں ڈھکیلا جا سکے، تو وہیں دوسری طرف ”دی کشمیر فائلز“ جیسی فلموں کے ذریعے خود ساختہ منفی کرداروں کو نشر کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرکے ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جا سکے ـ کیا ایسی تشویش ناک صورتِ حال میں اپنی حقیقی تصویر کو پیش کرنے کے لیے ”ڈریلیش ارطغرل“ جیسے ڈرامے بنانے کی اہمیت مزید واضح نہیں ہوجاتی؟ جس میں قابلِ اعتراض چیزوں سے احتراز کرتے اور غیر شرعی امور سے بچتے ہوئے مسلم حکمرانوں کی تاریخ بھی ہو اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیوں کا ذکر بھی، مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے واقعات بھی ہوں اور اسلامی تعلیمات کا عکس بھی؛ تاکہ کتابوں سے دور ہوکر فلمی دنیا میں جی رہی ہماری نئی نسل بھی اپنی صحیح تاریخ سے واقف ہوسکے اور تلاشِ حق کے خواہشمند اغیار بھی مسلمانوں کے کارناموں کو جان سکیں اور اسلامی تعلیمات و پیغامات سے آگاہ ہوسکیں ـ

(۳) ملحدین و مستشرقین سے ڈیبیٹس کا التزام
آج کی سائنٹفک دنیا میں ہر چیز کو میزانِ عقل پر تولا او پرکھا جاتا ہے جو فی نفسہ غلط نہیں؛ لیکن جب سائنس اپنے دائرۂ کار سے نکل کر دینی معاملات میں در اندازی کرنے لگ جائے اور پیمانۂ صحت و تغلیط کی حیثیت اختیار کرلے تو پھر اس کی کوکھ سے بہت سے شبہات جنم لے لیتے ہیں؛ دوسری طرف یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں باقاعدہ طور پر اس طرح کے اعتراضات پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ ان کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے؛ چناں چہ جب ان شبہات کا ازالہ نہیں ہوپاتا اور لوگوں کو ان کے ذہن میں پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات نہیں مل پاتے تو وہ الحاد و ارتداد کی کھائی کی طرف نکل پڑتے ہیں ـ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جس پلیٹ فارم سے ان شبہات کو عام کرکے لوگوں کو جادۂ حق سے پھیرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اسی پلیٹ فارم کے ذریعے ہم ویڈیو کی شکل میں ان کے اعتراضات کا جواب دیں اور ان لوگوں سے ڈیبیٹ کرکے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ ان اعتراضات و شبہات کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور بہ فضلِ رب ایمانی دولت سے محروم ہونے سے بھی محفوظ رہیں ـ
غرض کہ ہمارے اسلاف نے جس طرح تلوار و قلم میں سے حسبِ موقع، مناسب ہتھیار کا استعمال کرکے اشاعتِ دین و اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دیا تھا، لازم ہے کہ ہم اسی فریضے کو انجام دینے کے لیے آج کے دور میں تلوار و قلم سے تعلق کو مضبوط رکھتے، بلکہ مزید مضبوط بناتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کو بھی بطورِ ہتھیار اختیار کریں کیوں کہ یہ موقع اسی کا متقاضی ہے ـ

 

Comments are closed.