تازہ خداؤں کے شہر میں دیومالائی داستانیں!!!

ساجد حسین سہرساوی
ہمیں جسم کے جس حصہ کے نام سے پردہ ہے برداران وطن کے وہ بھگوان ٹھہرے، ہم جس حصہ کا نام بھی اپنے گھروں میں اور بڑے چھوٹوں کے بیچ لینا پسند نہیں کرتے اس پر آج ڈیبیٹ اور بحثیں ہورہی ہیں ، اربوں لوگ کی ساری توانائیاں اور توجہات اس اکیسویں صدی میں بھی اس عضو مخصوص کے ہونے نہ ہونے پر مرکوز ہے، ملکی معیشت و نہاد بھی اسی پر ٹکی ہوئی ہے، سرکاری کارندے سے لےکر عام لوگوں تک کی بھی دلچسپی واضح ہے، جسم کے ایک حجابی حصہ کے اس طول بحث نے جسم و جاں کو بےحیث کر دیا ہے، اس مخصوص عضو کے پجاریوں کے نزدیک جان و جہاں کی کوئی قیمت نہیں، ہر چیز بے وقعت اور بے آبرو ہے، گر کوئی چیز لائق ستائش و قابل پرستش ہے تو وہ ہے "شیو لنگ”۔
یہ "شیو لنگ” کیا ہے ؟ اس کی حقیقت و حیثیت کی تعیین پر ہزارہا برسوں سے اس کے پجاری متحد نہ ہوسکے، اس کے وجود اور استھاپنا آج بھی پجاریوں کیلیے ایک معمہ ہے؛ ہزار منھ ہزار باتیں، ہزار کتابیں ہزار روایتیں، ہزار پجاری ہزار معبد خانے اور اس کی ہراز قسمیں اور ہزار رسمیں؛ چونکہ تاریخی تذکرے اور اس کے بنائے گئے اصول و ضابطے اور اس کی حدیں و حصاریں ان پجاریوں کے مقدس بتوں کو پاش پاش کر دیتے ہیں اس لیے تاریخی پیچ و خم سے انہیں الجھن اور عار ہے؛ وہ دنیا کی تبدیلی و تغیرات اور تیزرفتار ترقی و تسخیرات سے خوفزدہ ہیں اسلیے وہ ہر اس ثبوت کو مٹا دینا چاہتے ہیں جو اس کی اساطیری و دیومالائی داستانوں کے بیچ مخل ہو ، یہ لوگ دلائل و براہین کی دنیا سے تنگ آچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ پھر سے وہیں چلے جائیں جہاں صرف اور صرف وہ ہوں (یہ ان کا قدیم اور اصل نظریہ ہے).
"شیو لنگ” کی حقیقت پر بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ان پجاریوں کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں، وجود پر بھی رائے مختلف ہیں شکل و صورت میں بھی اتحاد نہیں ؛ مشہور دو طریق ہیں جس کا تذکرہ یہاں ناگزیر ہے؛ کہا جاتا ہے: "شیو جی کا یہ لنگ محض ایک علامت اور نشان ہے” اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ: "حقیقت میں پاروتی جی کی اندام نہانی میں شیو جی کا لنگ پیوست ہے” ؛ علامت و نشان ہو یا اندام نہانی میں استھاپن؛ ایسا کیسے اور کیوں کر ہوا یہ بھی جاننا دلچسپی سے خالی نہیں، کتھا ہے: "ایک بار شیو جی خوبصورت برہمن کا روپ دھار کر ننگے جسم جنگل کی اور چل دیے جہاں رشی کی عورتیں انہیں دیکھ کر شہوت سے مغلوب ہوگئیں اور تاب نہ لا کر لپٹنے لگیں تو رشی و منی نے اسے وید کی مخالفت سمجھ کر شیو جی کو سراپ ( بددعا) دے دی کہ بندہ نافرمان! تیرا لنگ کٹ کر پاتال میں چلا جاوے! اور ایسا ہی ہوا لیکن لنگ کے پاتال میں جانے کے بعد تینوں لوک (پرتھوی لوک پاتال لوک سورگ لوک) میں ایک بھونچال آگیا ہر چیز تتر بتر ہونے لگی ، جس کو روکنے کا واحد راستہ "لنگ پوجا” تجویز کیا گیا، اور ایک دوسری کتھا کے مطابق: رشی لوگ پاروتی جی کے پاس آئے اور ان سے احوال کہا تو پاروتی جی نے اس لنگ کو اپنی اندام نہانی میں لے لیا جس سے تینوں لوک کا بھونچال تھم گیا” ؛ ایک کہانی اور ہے اس سلسلے میں کہ ایک بار پاروتی کو گرمی چڑھی تو انہوں نے شیو سے درخواست جماع کی شیو کا موڈ نہیں تھا تو منع کر دیا اس پر پاروتی نے کافی ضد کی تو شیو غصہ میں تیار ہو گئے اور دخول کے بعد لنگ کو خوب لمبا اور موٹا کر دیا جس کی وجہ پاروتی کو کافی تکلیف ہوئی تو انہوں نے شیو کو منع کیا جب وہ نہیں مانے تو پاروتی نے برہما کو پکارا برہما نے شیو کا لنگ ہی کاٹ دیا اس پر شیو برہما کے پیچھے غصہ میں دوڑے تو برہما نے اس شرط پر چھٹکارا حاصل کیا کہ شیو کے لنگ کی پوجا کی جائے گی (از تحفۃ الہند). یہاں یہ بھی ذکر کیے دینا فائدہ سے خالی نہیں کہ اس بھونچال کے آنے سے پہلے ہی پاروتی جی نے آگ میں کود کر جان دے تھی اور پھر دو بارہ جنم لی جس کا علم شیو جی کو نہیں تھا ان رشیوں نے ہی شیو جی کو بتایا تھا، نیز ان میں سے بعض کے نزدیک "شیو ہی برہما تھے شنکر تھے مہادیو تھے اور پتہ نہیں کیا تھے.
ظاہر ہے جس دھرم کے نظریات و عقائد کی بنیاد ہی صحرا میں ریت سے پڑی ہو اسے تو ہوا کے ہر بدلتے جھونکوں سے پشیماں ہونا ہی پڑے گا انہیں ہر وقت چوکنا تو رہنا ہی ہو گا کہ پتہ نہیں کونسا جھونکا اس ریتیلی بنیاد پر کھڑی عمارت کو بھسم کر دے ، اسلیے بجائے اس بنیاد کو مضبوط و پائدار بنانے کے چہار جانب سے کینہ و کپٹ ظلم و ستم قتل و غارتگری الزام تراشی و اتہام بازی کے حصار باندھے ہوئے ہیں لیکن ان ظالموں کو کہاں خبر کہ عقل و دانش کے اس منھ زور زمانے میں اس کی یہ خیالی و طلسمی عمارتوں کا وجود پائدار نہیں.
ان کا ایک فحش نظریہ یہ بھی ہےکہ دنیا میں جتنی نفع بخش اشیاء ہیں اس کے اندر بھگوان بننے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ ضرر رساں اشیاء بھی ان کے ہاں لائق پرستش ہیں ؛ اس نظریے پر غور کرنے کے بعد ایک چیز تو واضح ہےکہ: ان کو سمجھانا حماقت ہے اور اس سے بہتری کی امید لگانا عقل کی خرابی ہے بلکہ علامہ تفتازانی کے مشورہ "بل الطريق تعذيبهم بالنار ليعترفوا أو يحترفوا” پر بھی عمل نہیں کیا جاسکتا اسلیے کہ آگ بھی بھگوان ہے، ان کے مطابق تو ہم سب بھگوان ہیں اور واقعہ یہ ہےکہ ہم سب بھگوان مل کر خوب لڑ رہے ہیں جھگڑ رہے ہیں ، بڑا بھگوان چھوٹے چھوٹے بھگوانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے طرفہ تماشا کہ پہاڑ بھی بھگوان ہے؛ جہاں کہیں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھے ہیں ضروری ہےکہ اسے پوجا جائے، لوہے کی تلوار بنا کر ڈرایا دھمکایا جائے بھگوان بھگوان کے ساتھ قتل و غارتگری کا کھیل کھیلے پھر بھگوان مان کو اس کی پوجا کی جائے.
گیان واپی مسجد کے متعلق عدالتی فیصلہ اسی سلسلے کے نظریہ کی ایک کڑی ہے اسلیے ہمیں بہتری اور انصاف کی امید چھوڑ دینی چاہیے، جو کچھ ہورہا ہے وہ ہوتا رہے گا ؛ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اپنا حق چھین لیا جائے اور چھیننے سے پہلے قربانیاں ناگزیر ہیں یا کہ پھر ہورہے فیصلے آنکھ بند کرکے قبول کر لینا چاہیے تیسری راہ کوئی نہیں اگر کوئی تیسری راہ سجھا رہا ہے تو یقین جانیے کہ وہ تعاقب سراب ہے.
Comments are closed.