Baseerat Online News Portal

بھارت میں عدلیہ کا گرتا وقار!

احساس نایاب ( ایڈیٹر گوشہء خواتین و اطفال بصیرت آن لائن شیموگہ ، کرناٹک )

گزشتہ بدھ سپریم کورٹ نے سڈیشن لا پر روک لگانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی کے تیسرے ہفتے میں سپریم کورٹ اس معاملے پر دوبارہ سماعت کرے گا۔
کہا جارہا ہے کہ اس دوران مرکزی حکومت بھی سیڈیشن ایکٹ پر دوبارہ غور کرے گی ۔۔۔۔۔
2014 بی جے پی اقتدار کے بعد سے لگار تار بھارتی عدلیہ کے گرتے وقار کے بیچ سپریم کورٹ کی جانب سے سیڈیشن لا پر روک لگانے کا فیصلہ اقلیتی طبقے بالخصوص اُن بےقسور مسلم نوجوانوں کے لئے ایک امید اور راحت بھرا دکھائی دے رہا ہے، جو عرصہ دراز سے ملک سے بغاوت قانون کے تحت گرفتار ہیں ۔۔۔۔۔۔
اگر اس قانون کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو برطانوی راج کے دوران بنائے گئے اس قانون کو لے کر ملک میں کچھ عرصے سے زبردست بحث چل رہی تھی کیونکہ
برٹش راج میں انگریزوں نے اس ظالمانہ قانون کو 1837 میں جنگ آزادی میں شامل مجاہدین آزادی کے خلاف استعمال کرنے کے غرض سے بنایا تھا اور 1860 میں اس کو نافذ کیا گیا ۔۔۔۔۔
1870 میں انگریزوں نے ملک میں بڑھ رہے آندولن کو دبانے کے لئے ترمیم کرتے ہوئے اس میں سیکشن 124 اے کو جوڑ دیا ۔۔۔۔۔
1891 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے پہلا سیڈیشن کیس ایک بنگالی میگزین بنگوبازی کے ایڈیٹر جوگیندر چندر بوس کے خلاف درج کیا، ان کے علاوہ بھی کئی لوگون پر یہ کیس درج کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ جیسے
1897 میں بال گنگا دھر تلک پر بھی سیڈیشن کیس لگایا گیا اور 1922 میں انگریزوں نے گاندھی جی پر بھی سیدیشن کیس درج کرکے تقریبا 6 سالوں کے لئے گاندھی جی کو جیل بھیج دیا گیا ۔۔۔۔
1930 الہ آباد میں کسانوں سے مخاطب ہونے کے جُرم میں جواہر لال نہرو پر بھی سیڈیشن کیس درج کیا گیا ۔۔۔۔۔۔
جہاں 1947 میں بھارت کو انگریزوں سے آزادی مل گئی وہیں آزادی کے 75 سال گزرجانے کے بعد بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے ان غیرآئینی قوانین سے بھارت کی عوام کو آزادی نہیں مل پائی ۔۔۔۔۔
کانگریس کا دور ہو یا بی جے پی کا
ہر دور میں ہر وقت کی سرکاروں نے اس قانون میں امیڈمنٹ کرکے اپڈیٹ اپ گریٹ کرکے وقتا فوقتاً بےقسور نوجوانوں کے خلاف استعمال کیا ہے اور اندرگاندھی کے ایمرجنسی دور میں بھی اس قانون کو مزید سختی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
ابھی موجودہ دور کی بات کی جائے تو مودی سرکار نے اس قانون کا سب سے زیادہ سیاسی استعمال کیا ہے اور ہر اُس شخص پر سیڈیشن آیکٹ لگاکر گرفتار کرکے سالوں سال اسرزندان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو سرکار مخالف سرگرمیوں میں شامل ہیں جو سرکار کی غلطیوں پر سوال اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔
ایسے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخ کا بڑا فیصلہ کہنا غلط نہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ نے سیڈیشن لا یعنی ملک بغاوت قانون پر فی الحال کے لئے روک لگاتے ہوئے ایک طرح سے بی جے پی سرکار کی ظالمانہ کاروائیوں پر بریک، فُل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔۔
اور تاناشاہی کے دور میں بھارت کی ڈری سہمی عوام کو مثبت پیغام دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جس کے چلتے بی جے پی لا منسٹر کرن رِججو نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تنقیدی انداز میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
سرکار کی جانب سے کھینچی گئی لکشمن ریکھا کو سپریم کورٹ پار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس کا مطلب آپ خود سمجھ سکتے ہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے کئے گئے فیصلے پر اس طرح کا ردوعمل کس قدر تاناشاہی کا مظاہرہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی آج تک کی تمام سرکاریں جس قانون کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک کے پڑھے لکھے باشعور افراد کو دبانا چاہتی ہے چاہے وہ عمر خالد ، شرجیل امام جیسے سوشیل ایکٹویسٹ ، طالب العلم ہوں یا ونود دوبے صدیق کپن جیسے صحافی، یا کوئی سرکار کے خلاف بات کرنے والے وکلا ، اروندھتی رائے جیسی جانی مانی رائٹرس، پروفیسرس اور کئی ایکٹرس و دیگر شعبوں میں کام کرنے والے وہ سارے افراد جو اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے مظلوم دبے کچلے طبقوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں ، حکومت کی غلط پالسیوں اور ظالمانہ قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں ایسے تمام نوجوانوں کے بولنے، لکھنے پر بی جے پی سرکار کو جیسے ہی خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ ان سبھی پر سیڈیشن ایکٹ اور اس جیسے دیگر ظالمانہ و غیرآئینی ایکٹس لگاکر فورا گرفتار کردیتی ہے، لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد شاید یہ پہلے کی طرح آسان نہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ آئندہ دنوں میں مزید
نئے کیسس، نئے ایف آئی آرس اس قانون کے تحت تو درج کرنا مشکل ہے اور یہ بھی دوبتے کو تنکے کے سہارے کے برابر ہے ۔۔۔۔۔۔
باوجود اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کسی پر سیڈیشن چارجس کے تحت کیس درج ہوتا ہے تو کم از کم اُس نوجوان وکٹم کے پاس ایک آپشن یہ رہے گا کہ وہ اس کے خلاف کورٹ جاسکتا ہے اور سپریم کورٹ کا یہ فیصلا دکھاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ کسی پر بھی سیڈیشن کیس اُس وقت تک درج نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ کوئی ایس پی لیول کا اعلی افسر اس بات کی تصدیق نہ کردے کہ فلاں شخص فلاں فلاں سرگرمیوں میں ملوث ہے اور یہاں پر اُس اعلی افسر کو پورا رکارڈ بناکر پیش کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق فی الحال 800 سیڈیشن کیسس فائل کئے گئے ہیں اور 13 ہزار لوگ فی الحال جیلوں میں بند ہیں اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو کہیں نہ کہیں اُن تیرا ہزار نوجوانوں کے مستقبل سے بھی جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بھی اگر بات کی جائے تو اس فیصلہ کو اس وقت اتنی اہمیت اس لئے بھی حاصل ہے کیونکہ
2014 کے بعد سے بھارت کی عدلیہ پر ایک قسم کا سیاسی دباؤ پڑا ہے اور وہ جس پریشر کے اندر رہتے ہوئے کام کررہی ہے وہ ملک کی جمہوریت کے لئے بیحد خطرناک نقصاندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں ایسے گنے چُنے فیصلوں کا آنا بھی تاریکی میں امید کی کرن ہے ۔۔۔۔۔۔ شاید اسی لئے بھی اس کو تاریخی فیصلہ کہا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا ماضی میں جھانکنا ہوگا اور گذشتہ سالوں کے اُن اوراق کو پلٹنا ہوگا جب سپریم۔کورٹ کے 4 سینئیر ججوں کو مجبورا پریس کانفرنس کرکے بھارت کی عوام کو یہ کہنا پڑا تھا کہ بھارت کی سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے ۔۔۔۔
یہ بھارت کی تاریخ کا پہلا ایسا واقعہ تھا جس نے بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو چونکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور اُس وقت کے اُن چار ججوں میں سے ایک جسٹس چیلامیشور نے یہ تک کہا تھا کہ آج ہم پریس کانفرنس کے ذریعہ اس لئے سامنے آئے ہیں کہ آج سے بیس سال بعد کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ ان چار ججوں نے کیا اپنا ضمیر بیچ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ان چار ججوں کے نام ہیں جسٹس جستی چیلامیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور، اور جسٹس کورین جوسیف ۔۔۔۔۔۔۔
یہ اور بات ہے کہ بہت جلد جسٹس رنجن گوگوئی کی کمزور نبص بی جے پی کے ہاتھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔
اور رنجن گوگوی کے قلم کی نوک پر سوار ہوکر بھاجپہ فیصلے سنانے لگی ۔۔۔۔۔ بہرحال
آپ کو پیگاسس معاملہ تو یاد ہی ہوگا ، اسرائیل سے خریدا گیا ایسا سافٹ ویر جس کے ذریعہ بی جے پی ملک کے تمام بڑے نامور شخصیات کی جاسوسی تھی یہان تک کے جن سے بی جے ہی کو خطرہ ہے یا جس کی نقل و حرکت سے بی جے ہی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اُن سبھی کے فون نمبرس اس فہرست میں شامل تھے ، چاہے وہ اپوزیشن پارٹیوں کے بڑے سے بڑے لیڈر ہوں ، صحافی ، سپریم کورٹ کے ججس اور کئی جانی مانی شخصیات اور اس پورے واقعہ سے جُڑا ایک نام رنجن گوگوئی کا بھی ہے، جس کے بعد کئیوں کے کئی راز فاش ہوئے، تو کئیوں نے سرکار کے آگے گھٹنے ٹیک دئے تو کئیوں کو بلیک میل بھی کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران اپریل 2019 میں ایک خاتون وکیل یعنی جونئیر اسسٹنٹ نے رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف کیس درج کردیا تھا
خبروں کے مطابق اُس خاتون وکیل اور اُس کے کئی رشتہ داروں کے فون نمبرس بھی پیگاسس فہرست میں موجود تھے ، ان تمام واقعات کو کڑی سے کڑی جوڑ کر دیکھیں تو سب کچھ سمجھ آجائے گا ۔۔۔۔۔
2018 میں سپریم کورٹ کے چار سینئیر ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس
اپریل 2019 میں اُن چار ججون میں شامل جج کے خلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ
پھر 9 نومبر 2019 مین ہنگامی طور پر سالوں سے چل رہے
بابری مسجد کیس پر غیرمنصفانہ فیصلہ کے آنا یوں
2018 میں حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والا ایک بیباک سینئیر جج کو بھیگی بلی بنادیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بھاجپہ کے رنگ مین رنگتا نظر آیا، کئ تجزیہ نگاروں کے مطابق بابری مسجد کے خلاف دئے گئے غیر منصفانہ فیصلے کی ایک بڑی وجہ رنجن گوگوئی کا یہی اسکینڈل تھا ۔۔۔۔۔۔ اور بابری مسجد فیصلے کے فورا بعد گوگوئی کو راجیہ سبھا ممبر بنادینا بی جے پی کی طرف سے انعام تھا ۔۔۔۔۔۔
بہرحال یہ سب بتانے کا مقصد بھارت کی عدلیہ پر حکومت کا دباؤ اور ایک طرح سے جو نظر جو پکڑ ہے وہ دکھانا ہے کہ بی جے پی سرکار ملک کے ہر شعبے ہر محکمے پر کس قدر قابص ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں کہیں سے بھی اگر منصفانہ فیصلہ آتا ہے یا آنے کی امید ہے تو اس پر تنقید کرنے یا اس کو کسی سازش سے جوڑ کر فلان فلان کہنے کے بجائے، اس طرح کے فیصلوں کو سراہتے ہوئے مزید یہ کوشش جدوجہد کرنی چاہئیے کہ مستقل اس طرح کے فیصلے آئیں ۔۔۔۔۔۔۔
یاد رہے عوام کی طاقت کے آگے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت لاچار ہے ،
وکلا ہوں ، جج ہوں ، صحافی ہون ، پولس ہو یا کوئی بھی ، ہیں تو یہ بھی ہمارے اور آپ جیسے انسان جن کی اپنی فیملی اپنی ذاتی زندگیاں ہیں ، جتنا ڈر خوف ایک عام انسان کو ہوتا ہے اس سے ہزار گنا ڈر خوف میں یہ بھی جی رہے ہوتے ہیں ایسے میں عوام کو چاہئیے کہ وہ ان کی ذاتی زندگی سے کیڑے نکالنے کے بجائے اچھے کاموں میں ان کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی طاقت بنیں ، بیشک غلط فیصلوں پر انہیں ٹوکیں ، تنقید کریں، سوال کریں ، لیکن اچھے فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے ان کی ستائش کرنا بھی موجودہ حالات میں ضروری ہے خاص کر ایسے دور میں جہان محظ بُرے کو دل سے بُرا سمجھنا بھی جہاد کے برابر ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر گیان واپی کیس سے جُڑے جج کا حالیہ بیان بھی آپ کو بتانا ضروری ہے جس میں انہونے کہا تھا کہ
ڈر کا ماحول بنادیا گیا ہے ، ڈر اتنا کہ مجھے اپنی فیملی کی اور فیملی کو میری فکر لگی رہتی ہے ۔۔۔۔۔
ایک فیصلہ سناتے ہوئے سول جج سینئر ڈویژن روی کمار دیواکر نے اپنے فیصلے کے دوران جو جو باتیں کہیں ہیں یقینا وہ قابل توجہ ہیں۔ انھوں نے اپنی سیکورٹی کو لے کر فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ معمولی کیس میں بھی ڈر کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ ڈر اتنا کہ میری فیملی کو میری اور مجھے اپنی فیملی کی سیکورٹی کی فکر بنی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایک جج کی زبان سے اس طرح کی باتیں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح کا ماحول بن چکا ہے کہ انہیں اپنی ماں کے تعلق سے یہ تک کہنا پڑگیا کہ ان کی ماں اور ان کی بیوی کو ہمیشہ ان کی فکر رہتی ہے اور ان کے گھر سے باہر رہنے پر بیوی بار بار ان کی سیکورٹی کو لے کر فکرمند پریشان رہتی ہیں۔ اور ایک جگہ جج نے یہ بھی کہا کہ کیس کے سلسلے میں جب وہ موقع پر جا رہے تھے تو ان کی ماں نے انہیں جانے سے منع کیا کیونکہ ایک جج کی مان کو اپنے بیٹے کی سیکورٹی کو لے کر خطرہ محسوس ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
ان تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اندازہ لگا لینا چاہئیے کہ بھارت کا لا اینڈ ارڈر کس حد تک لاغر ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔
ایسے میں سب کچھ جانتے بوجھتے اپنے شرعی مسائل لے کر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ہماری پہلی بڑی غلطی ہے اور دوسری بڑی غلطی اور بےوقوفی ان عدالتوں سے انصاف کی امید کرنا ۔۔۔۔۔۔
یہان پر ہمارے پاس فی الحال ایک ہی آپشن بچا ہے ڈیموکریٹک وے میں اپنی بات رکھتے ہوئے آواز اٹھائیں اور اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں ۔۔۔۔۔
یا ابھی بھی کوئی امید باقی ہو تو عشرت جہاں کیس اور سی بی آئی جج جسٹس لوہیا کے موت کم قتل کی داستان ایک مرتبہ ضرور پڑھیں ۔۔۔۔۔۔
جسٹس لوہیا جیسے ایماندار جج کا انجام کتنا دردناک ہوا اور راتوں رات کس طرح سے سارا معاملہ دبا دیا گیا ۔۔۔۔۔۔
خیر ایسے خوفناک دور میں جہاں صحافت سے لے کر عدلیہ اور ہر شعبہ حکومت کے ہاتھوں گھٹنے ٹیک چکا ہے یا بک چکا ہے وہاں اگر ایک بھی حق گو انسان نظر آئے تو وہ خوش آئیند ہے اور بھارت میں یہی وہ سیکولر لوگ ہیں جو بھارت کی دم توڑتی جمہوریت کو وقتا فوقتا زندہ رکھے ہیں ۔۔۔۔۔
سیڈیشن قانون پر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بیشک انسانی حقوق کی باسداری کرتا ہے، بس دیکھنا یہ ہے کہ آگے سرکار اس پر کتنا عمل کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔
اور محظ شک کی بنیاد پر سالوں سے جو نوجوان اسیر زندان ہیں اُنہیں راحت ملے گی یا نہیں ؟¿؟
اور تاج محل، بلڈوزر مہم جیسے کیسوں میں عدالتوں کی جانب سے جو پھٹکار لگائی گئی ہے اس کا حکومت پہ کتنا اثر پڑتا ہے ؟
کیا بی جے پی سرکار اپنی تاناشاہی سے باز آتی ہے یا عدالتی فرمان کی بھی دھجیاں اڑائی جائیں گی ….. ؟؟؟
آخر میں سری نگر کے چیف جسٹس آف انڈیا سی وی رمنا کی تقریر کا وہ حصہ جس میں انہونے کہا تھا کہ امن تبھی قائم ہوگا جب لوگون کے حقوق اور وقار کا تحفظ ہوگا ۔۔۔۔۔۔
ورنہ سرلنکا اور اُس جیسے درجنوں ممالک اور وہاں کی تاناشاہ سرکاروں کی مثالیں تو سبھی کے آگے موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نہ کریں آنے والے دنوں میں بھارت کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ
ظلم کی عمر کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو زوال تو سب کو آنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی کے ساتھ فیض احمد فیض کی انقلابی نظم کے چند اشعار تاکہ ڈرے سہمے دلوں کو حوصلہ ملے اور ایک امید جگے ۔۔۔۔۔۔
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
ہم دیکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.