مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے !

احساس نایاب ( ایڈیٹر گوشہء خواتین و اطفال بصیرت آن لائن، شیموگہ، کرناٹک )

تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا ؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے !

دکنی زبان میں ایک مشہور کہاوت ہے
” تو مارے جیسا کر میں روئے جیسا کرتوں ”
موجودہ حالات میں میم سے موہن بھاگوت اور میم سے محمود مدنی کے حالیہ بیانات کے لئے یہ کہاوت بالکل سوٹیبل ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جہاں
ایک طرف چڈیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بند تیاریاں زوروشوروں سے جاری ہیں، جس کے چلتے جابجا مسلمانوں کا قتل عام بھی ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں
امریکی اخبار نیویارک ٹائمس سمیت دنیا بھر کے کئی اخبارات و رسائل نے اس موضوع کو بڑے پیمانہ پر شائع کیا ہے ۔۔۔۔
یہان تک کہ جینو سائڈ واچ نے ہری دوار واقعہ پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی سیاسی لیڈران بالخصوص امریکی کانگریس پر زور دیا کہ وہ نریندر مودی سرکار پر دباؤ ڈالے ۔۔۔۔۔۔؛
لیکن افسوس موجودہ حالات کی خطرناکی سے واقفیت کے باوجود نہ ہمارے نام نہاد قائدین کے کانوں پر جوں رینگی ، نہ ہی مسٹر بھاگوت کو کسی قسم کا فرق پڑا؛ بلکہ اس سلسلے میں ان کی جانب سے ایک ہلکا پھُلکا بیان تک سامنے نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ اب بھی ہندو مسلم بھائی چارے کا جھوٹا ڈھول بحاتے ہوئے دکھاوا کررہے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی بگڑی شبیہ کو درست کرنے کی کوشش میں دنیا کو فریب میں رکھا جارہا ہے اور اس مقصد کو کامیاب کرنے کے لئے ہمارے ہی چند دنیا پرست ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

ابھی حال ہی کی بات لیجیے، موہن بھاگوت اپنے بیان میں یہ کہتے نظر آئے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے وہیں دوسری جانب یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہندوؤں کی شردھا اور آستھا سے جڑا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غور کریں تو ان کے اپنے ہی بیان میں تضاد ہے؛
کیونکہ انہوں نے اپنی اسی شردھا اور آستھا کے نام پر ہم سے ہماری بابری مسجد چھین لی، اور اب دوبارہ اپنے دبے لفظوں میں شردھا اور آستھا کی دہائی دے کر گیان واپی کو اپنے حق میں کیا جارہا ہے اور ایک طرح سے بھارت کی عوام کو اس بات پر کنوینس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ عدالتوں کے فیصلوں کا خیرمقدم کریں، بھلے وہ فیصلہ مسلمانوں اور مذہبی عبادت گاہوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔
بھلے مسلمانوں کی حق تلفی، ان کے ساتھ کھُلی ناانصافی ہی کیوں نہ ہو، ۔۔۔۔۔
اگر مسلمان کمزور ہیں ، اکثریت میں کم ہیں تو کیا اُنہیں ہر ظلم ناانصافی قبول کرنی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
جبکہ خود ان لوگوں کی نظر میں آج عدالتوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔۔۔۔۔
شبری مالا معاملے پر یہ لوگ سڑکوں پر اتر سکتے ہیں؛ لیکن مسلمان اپنی عبادت گاہوں اور اپنے حقوق کے لئے آواز بھی نہیں اُٹھاسکتے، نہ ہی اعتراض جتاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی بابری مسجد کے وقت ساری دنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے آستھا کے نام پر بابری مسجد کے ساتھ ناانصافی کی ، اور کیسے چند ملت فروشوں نے بھی آگے بڑھ کر اس ظالمانہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے مسجد کا سودا کیا
اس پر ستم ظریفی فیصلے کے فورا بعد یہی لوگ امن کے پجاری بن کر قوم کے نوجوانوں کو صبر کی نصیحت دیتے ہوئے جلے پر نمک چھڑکنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔
بالکل اسی طرح ایک بار پھر گیان واپی مسجد کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔
وضو خانہ پر قدغن لگانے سے قبل پورا ایک ماحول تیار کیا گیا ، چند معاملوں پر مسلمانوں کو میٹھی گولیاں کھلاکر آنا فانا میں گیان واپی مسجد کے وضو خانہ کے پتھر کو شیولنگ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے عدالت کے ذریعہ وضو خانہ کے اُس پورے حصہ کو سیل کروادیا گیا ۔۔۔۔۔۔
اس پر ستم بالائے ستم سیاہ کوٹ پہنے وکیلوں کے ایک گروہ نے حال ہی میں احتجاج کیا ہے کہ وہاں پر نماز نہیں ہوگی؛ کیونکہ وہاں پر بابا مل گئے ہیں یعنی شیولنگ مل چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کیسے مسلمانوں کے خلاف ایک پورا ماحول بنایا اور استعمال کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کے باوجود ان کی اندھی نگری میں سب کچھ چنگا سی ۔۔۔۔۔۔۔
موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں ایک اور اہم اور قابل غور بات کہی ہے جس کو لے کر گودی میڈیا سے لے کر خود کو سیکولر ہونے کا دعوی کرنے والوں کی جانب سے خوب واہ واہی، ستائش کی جارہی ہے کہ بابری مسجد آندولن کی طرح گیان واپی مسجد پر یا کسی اور عبادت گاہ کے معاملے پر آر ایس ایس کی جانب سے کسی قسم کی تحریک نہیں چلائی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھاگوت کا یہ بیان غور کریں تو سمجھ دار کو اشارہ کافی ہے ۔۔۔۔؛
کیونکہ اب آر ایس ایس کے لئے ایسی کسی بھی تحریک کی ضرورت ہے ہی نہیں ۔۔۔۔
پہلے تو موجودہ سرکار انہی کی ہے، عدالتیں بھی انہیں کی جی حضوری کررہی ہیں، دیگر شعبے محکمے سے لے کر خود ملی و سیاسی مسلم قائدین کے منہ میں بھی انہیں کی زبانیں  ہیں اور چھوٹے مدنی تو باقاعدہ ان کے ترجمان بن کر ایک کے بعد ایک میڈیا انٹرویوز کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بڑی تحریک اور کیا ہوسکتی ہے ؟؟؟
حال ہی میں گیان واپی مسجد کے تعلق سے جمیعت کی جانب سے کی گئی اپیل آپ کو بھی یاد ہو جس میں گیان واپی مسجد معاملہ پر مسلم نوجوانوں کو کسی قسم کا احتجاج، ڈبیٹ یا سوشیل میڈیا پر تبصرہ سے روکا گیا، ان سب کا مقصد آخر کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد کی تاریخ اور حقائق سے عوام کو لاعلم رکھنا کہاں تک صحیح ہے ؟؟؟؟

اور اب محمود مدنی بذات خود میڈیا کے ذریعہ جمیعت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اور خود کو 30 کروڑ مسلمانوں کا چہرہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اسی کے چلتے آج تک جیسے نفرت کو فروخت دینے والے گودی چینل پر بیٹھ کر یوگی کے حالیہ فرمان مدارس کی سرکاری فنڈنگ کو روکے جانے پر یوگی کی تائید کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور بار بار گیان واپی مسجد کے تعلق سے عدالتی فیصلے کو فوقیت دے رہے ہیں، آخر ان سب کا مقصد کیا ہے ؟؟؟
اس دوران کہیں پر بھی ایک بھی جگہ مسجد کو لے کر ان کا لگاؤ ان کی تڑپ نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔۔؛
بلکہ ان کی باتوں سے فیصلے سے پہلے فیصلہ نظر آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔

خیر آر ایس ایس کی سو سالہ محنت رنگ لاچکی ہے اور آج کی تاریخ میں بھارت کی سیاست فقط آر ایس ایس کی باندی کی حیثیت رکھتی ہے ، سیکولر کہی جانے والی ساری پارٹیاں ہندوتوا کے آگے دم توڑ چکی ہیں ۔۔۔۔
ایسے میں کوئی بھی مذہبی عبادت گاہ کو ہتھیانے کے لئے انہیں کسی قسم کی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ہے بنا تحریک کے یوں بھی ان کا مقصد پورا ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر ایس ایس نے جس طریقے سے بجرنگ دل ، ہندو یوا واہنی ، اے بی وی بی و دیگر تنظیموں کی تربیت اُن کا برین واش کیا ہے بیشک وہ آر ایس ایس کی آئڈیالوجی پر کارگر ہیں
فی الحال آر ایس ایس خود چار قدم پیچھے رہ کر انہیں آگے رکھے گی اور خود حالیہ بیانات کی طرح مسلمانوں کو میٹھی میٹھی گولیاں کھلائی جائیں گی اور بھاگوت کے اس بیان سے کسی کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو مدنی اور ندوی جیسے نام نہاد مسلم رہنما و قائدین کو اپنی کمزوریوں ، لاپرواہیوں ، بزدلی و بےحسی کو ڈھانپ کر مزید خوش فہمی میں جینے کا بہانہ مل گیا ہے ۔۔۔۔۔
عین ممکن ہے آئندہ کئی دنوں تک اسی فریبی بیان کو حکمت، اتحاد و بھائی چارگی کا نام دیا جائے گا یہ کہہ کر کہ آر ایس ایس نے اپنی آئیڈیا لوجی بدل لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

جبکہ مسلمانوں کے آبا و اجداد کو ہندو دلت کہہ کر مسلمانوں میں ہندو ڈی این اے ہونے کا کھُلا دعوی کیا جارہا اور اُس وقت بھی شرپسند موہن بھاگوت کی تائید کرتے ہوئے اُسے مسلمانوں کا دوست ہمدرد بتاتے ہمارے رہنما ارشد مدنی کی زبان ایک پل کے لئے بھی نہیں لڑ کھڑائی ۔۔۔۔۔۔۔

اگر یہ لوگ واقعی میں ہمدرد ہوتے تو آج بھارت میں شردھا، آستھا کے نام پر ایک جانور کو بہانہ بناکر مسلم نوجوانوں کی لنچنگ نہیں کی جاتی ۔۔۔۔۔
اب تو خاکی پولس وردی پہن کر سنگھی قاتلوں کا کام انجام دے رہی ہے ۔۔۔
تعلیمی اداروں میں حجاب کو لے کر ہماری بچیوں کے ساتھ کھُلے طور پہ بدسلوکی کی جارہی ہے ۔
ناحق ہمارے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، ہماری عبادت گاہوں کی بےحرمتی اور ہمارے بزرگان دین کی توہین کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ان کے اندر ذرہ برابر بھی انسانیت ، ہمدردی ہوتی تو یقین جانیں آج سنگھی دہشتگردوں کے حوصلے اس قدر نہ بڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی و غیرسیاسی آقاؤں کی پشت پناہی کے بغیر اس قدر ظلم و بربریت ممکن ہی نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سال 2021 میں اسی موہن بھاگوت کا ایک بیان سرخیوں میں تھا
5 جولائی 2021 کو غازی آباد میں ایک مسلم اسکالر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب’ویچارک سمنوے ایک پہل’ کے رسم اجراء کے موقع پر موہن بھاگوت نے کہا تھا۔ کہ
ملک کے ہندو مسلم ایک ہیں ، اس کی بنیاد ہمارا مادر وطن ہے، عبادت کی بنیاد پر ہمیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ زبان اور ریاست اور دیگر امتیازات کو چھوڑ کر ہمیں متحد ہوکر ہندوستان کو ایک عالمی رہنما بنائیں ۔۔۔۔۔

گزشتہ سال 2021 سے امسال 2022 کے درمیان گزرے تمام حالات واقعات آپ سبھی کے سامنے ہیں نہ اُس وقت بھاگوت کے بیان سے سنگھی دہشتگردی میں کمی آئی ہے، نہ ہی اس بیان سے کوئی تبدیلی ہونی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
باوجود یہ لوگ بار بار مسلمانوں کو افیم چٹاکر دھوکے میں رکھنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔

مثال کے طور پر
یہاں بھاگوت کے بیان پر ایک ڈرامہ چلا ہے
” ہر مسجد میں شیولنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے” اس جملے پر
منگلورو اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے ریاستی صدر راجیش پوترن نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۔ موہن بھاگوت کو اس طرح کا بیان دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آر ایس ایس موہن بھاگوت کی نہیں ہے؛ بلکہ کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی قائم کردہ تنظیم ہے۔ ہندو سماج موہن بھاگوت کے بیان کو قبول نہیں کرسکتا ، اس نے موہن بھاگوت کو یہ تک کہہ دیا کہ اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں اسی لیے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
یہ سارا ڈرامہ اوپر والی کہاوت جیسا ہے تو مارے جیسا کر میں روئے جیسا کرتوں ۔۔۔۔۔۔

یہان پر ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ
جب بھی ملک میں کوئی نیا مدعا چھیڑنا ہوتا ہے تو محمود مدنی اور موہن بھاگوت دونوں ایک ساتھ میدان میں انٹری لیتے ہیں؛
لیکن یہ اور بات ہے کہ ایک اپنی ہندوتوادی آئیڈیا لوجی کے تئیں مخلص ہے تو دوسرا اپنی قوم کی قبریں کھود رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؛
ورنہ یہ ممکن نہیں کہ بھارت جیسے ملک میں بالخصوص اس وقت جب مسلم مخالف طاقتوں کا راج ہے مدنی پریوار اور ان جیسے نام نہاد قائدین مسلمانوں کی ہمدرد ہونے کا دعوی بھی کریں، ساتھ میں پورے عیش و عشرت کے ساتھ عالیشان زندگیاں گزاریں اور ان کے آس پاس ” اے بی سی ڈی ای ڈی جیسی ایجنسیاں بھی نہ بھٹکیں، نہ ہی یہ لوگ سرکار کی آنکھوں کا کانٹا بنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ بزرگ رہنما کلیم صدیقی اور اُن جیسے بے قصور نوجوان آج بلاوجہ جیل کی اذیتیں جھیل رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
خیر راز جو بھی ہو کانگریس سے لے کر بی جے پی کے دور اقتدار میں مدنی خاندان کا ایسا تال میل یقینا قابل دید ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ابھی یہ آغاز ہے دیکھتے جائیں آگے آگے ہوتا کیا ہے
گیان واپی مسجد کو لے کر امن اور بھائی چارگی کے اور کتنے بگُل بجائے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔؛
کیونکہ آٹھ سالوں سے سنگھی دہشتگردوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے ، ٹی وی ڈبیٹس کے دوران خود بی جے پی لیڈران نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کی ہیں، ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے تعلق سے توہین آمیز تبصرے کئے ہیں، اس کا اثر اسلامی دنیا پر پڑا ہے اور مسلسل چارون جانب مودی سرکار کی مخالفت اور بھارتی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں آر ایس ایس بی جے پی اپنے پالے ہوئے سنگھی سپولوں سے خود پریشان ہے اور فی الحال انہیں اپنی گندی و اسلام مخالف شبیہ بہتر بنانے اور اسلامی ممالک کی غضبناکی سے بچنے کے لئے گستاخ نپور شرما اور نوین کمار جندال کو مجبورا معطل کرنا پڑا ۔۔۔۔۔۔۔؛
لیکن یہ اقدام مسلمانوں یا اسلام محبت دوستی کے لئے ہرگز نہیں تھا؛ بلکہ بی جے پی پر عالم اسلام کی جانب سے جو پریشر دباؤ پڑرہا ہے وہ اس کی وجہ سے ہے؛
لیکن یہاں پر بھی محمود مدنی ، توقیر رضا، سلمان ندوی جیسوں کی گھٹیا، چاپلوس فطرت نے اپنا رنگ دکھا دیا ۔۔۔۔۔۔
جس کا خون توہین رسالت پر نہیں کھولا 8′ 9 دنوں سے لگاتار گستاخ خبیثوں کو دیکھ کر بھی جنہونے چُپی سادھی تھی وہ آج حکومت ہند کے دفاع میں آگے آچکے ہیں
اور بھارت کے غیور مسلم نوجوانوں کی مسلسل محنت جدوجہد اور بی جے پی پر عرب ممالک کے دباؤ کو سرے سے فراموش کرکے میڈیا کے آگے حکومت ہند کے اس اقدام کا شکریہ ادا کیا جارہا ہے؛ تاکہ بیرونی ممالک بالخصوص مسلم ممالک میں حکومت ہند کی داغدار شبیہ بےداغ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی کووڈ کے چلتے مسٹر مودی کے فارین ٹریپس رک چکے تھے ابھی جیسے ہی حالات بہتر ہورہے ہیں دوبارہ مودی یاترا کا آغاز ہوجائے گا ایسے میں انہیں اپنی بگڑی شبیہ ہرحال میں بحال کرنی ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اگر عالمی میڈیا میں اپنی شبیہ کی درستگی مقصد نہیں ہوتا تو یقین جانیں آر ایس ایس کے اعلیٰ ترین رہنما بھاگوت کے ذریعہ وقتا فوقتا میٹھی گولیاں نہیں چٹائی جاتیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی ملت فروشوں کو سیاسی اہمیت حاصل ہوتی ۔۔۔۔۔۔
یاد رہے یا اس بات کو گانٹھ باندھ لیں آر ایس ایس کا خاص چہرہ آر ایس ایس کے روح رواں مسٹر موہن بھاگوت میٹھی چھری سے کم نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب سے جب جب غلاظت پھیلائی جاتی ہے تو اُسے سمیٹنے کے لئے ان کی حاضری لازم ہوجاتی ہے اس دوران جناب چھوٹے مدنی بھی ان کے خفیہ ترجمان بن کر میدان سنبھالتے ہوئے مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرنے لگ جاتے ہیں؛
لیکن ان کے بیانوں اور ان کی نیتیوں مین کتنا کھوٹ ہے یہ گزرتا وقت ہی عیاں کردیتا ہے ۔۔۔۔۔
فی الحال دونوں حضرات گیان واپی مسجد معاملے کو لے کر کافی ایکٹیو ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔
خیر معاف کیجئیے گا فی الوقت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ بیحد تکلیف دہ ہے؛ کیونکہ یہ منافقت کی انتہا ہے پہلے قوم سے منافقت اور اب اپنے نبی سے منافقت ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں مسلمانوں کے سارے گلے، شکوے شکایتں اور سوال اپنے نما لوگوں سے ہیں؛ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

Comments are closed.