حاصل مشاہدہ

الطاف جمیل شاہ
بچپن کے دن تھے دادی نانی ماسی پھوپھی کو ہی بنتے سنورتے دیکھا عجیب خواتین تھیں اٹھتی تو بسم اللہ چلتی بسم اللہ ہم ان کے آس پاس گر جاتے یا ٹھوکر کھاتے تو بسم اللہ بس بسم اللہ ہی انہیں آتی تھی
خیر جب بن سنور کر نکلتی تو ایک برقعہ اوڑھ لیتی سفید رنگ کا اکثر ہوتا جس کے سر کی طرف ایک ٹوپی سی بنی ہوتی اور ڈھیل ڈھول سال برقعہ ہوتا ہم دادی یا نانی کے ساتھ کہیں جاتے مہمان بننے تو حکم ہوتا ۔۔ تلا گژھ یہہ قصابہ آن یؤوری ۔۔۔ مطلب برقعہ لے آؤ
میں نے انہیں بڑھاپے کی صورت میں ہی دیکھا میں شریر تھا ان کو اکثر تنگ کرتا ہائے اللہ ان کی آخری آرام گاہوں کو نور سے بھر دے کبھی مجھے مارا نہیں نہ بدعا دی نہ کوئی برا لفظ بس ان کے لبوں پر ہمیشہ دعائیں ہوتی خیر
یہ برقعہ اوڑھ کر چلتی تو لگتا کپڑے کا تھان چل رہا ہے ان خواتین میں شرم و حیا اس قدر کہ کسی مرد کو دیکھا تو نظریں جھک گئیں وہ خواہ ان کے بھائی ہی کیوں نہ ہوتے اکثر میں نے دیکھا ہے کہ گر نماز بھی پڑھتی تو دروازہ بند کرلیتی کہ کوئی غیر ہمیں نہ دیکھے ان کے سر کی چادر لمبی سی سادہ ہوتی اور یہ راہ چلتے منہ چھپا لیتی اس سے
مجھے یاد ہے میری دادی ایک بار بارہمولہ کے پل سے گزری میں نے شرارت کی۔۔ آپا تھپ کرہ نتہ گژھک دریاوس ۔۔ آپا پل کو پکڑ نہیں تو دریا میں گر جائے گی وہ اس قدر سادہ کہ پکڑ کر بیٹھ گئی ڈر کے مارے اس قبیل کی جو بھی خواتین ہوتی تھی یہ واقعی انپڑ تھی پر ان کی پاک دامنی سادگی خوف خدا آپسی محبت و خلوص ان کے ایمانی لذت و چاشنی کا عکاس ہوتی پھر زمانہ بدلا اور جہاں میں تعلیمی نور اور دانش گاہیں عام ہوئیں بنت حوا ان دانش گاہوں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے لئے آنے جانے لگیں
پہلی بات جو ہوئی ان سے وہ بسم اللہ کی گردان گم ہوگی پھر وہ ہوا جسے دیکھ کر ہر ذی شعور اور نیک فطرت شخص اک آہ بھر کے گزر جاتا ہے
برقعہ آج بھی ہے پر اس کے رنگ اس کی چال دیکھ کر اسے برقعہ یا عبایہ کہنا ان چیزوں کی توہین ہے یا تو اس قدر چست ہے کہ الاماں الاماں یا پھر اس کے اوپر بنیان لگا رکھی ہے یا اس کی سلائی اور اس کہ رنگینی اس قدر دلفریب کہ نگاہیں تڑپ جاتی ہیں دوسرا تماشہ یہ کہ عبایہ لگا رکھا ہے پر منہ کھلا اور سر سے ڈوپٹہ گرتے ہوئے گردن میں لٹک گیا ہے خیر اس میں پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں چلے گا
پر اب وادی میں مسلم گھرانوں کی بیٹیاں ایسا لباس زیب تن کئے وارد بازار ہوتی ہیں کہ آدمی حیرت سے سوچتا ہے شاید لڑکے نے بالوں کی لٹھ دراز کر رکھی ہے پینٹ شرٹ تو اب کلچر بنتا جارہا ہے ایسے ہی ہمارے نوجوانوں کو دیکھیں پھٹی ہوئی جینز ایسے ٹانگوں ہر چڑھا رکھی ہے لگتا ہے گوشت کا لوتھڑا ٹانک دیا ہے کسی نے پر ظالم چلنے لگا ہے میں نے ایک نوجوان سے ایک بار کہا او بھئی یہ تمہاری پینٹ کیسے پھٹ گی ہے کہا یہ فیشن ہے میں نے بھی مذاق میں کہا اور دو چار جگہوں پر بھی پھاڑ دیں تاکہ پورے جناب بندر دکھائی دو تاکہ شرم و حیاء آپ سے پردہ کرے اب یہی لت ہماری مقدس بیٹیوں کو بھی لگ گی ہے نہیں لگتا یہ کوئی خاتون ہیں کیوں کہ نالوں کی لٹیں بکھری ہوئی نگاہوں میں اس قدر سیاہی چہرہ عجیب سا کپڑے چست اور چلنے کے انداز کیا کہیے پھر میں سوچتا ہوں کہ کیا ہم مسلمان ہیں پر یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں جب ایسی بہنوں کو کسی بزرگ کی زیارت پر دیکھتا ہوں دعائیں مانگتے ہوئے تو یاد آتا ہے یہ بزرگ اولیاء کرام بھی کیا کرسکتے ہیں کہ تمام عمر شاید بیوی کا چہرہ تک نہ دیکھ سکے کیوں کہ حیاء تھی اب تو وہ مخلوق پیدا ہوگی ہے جو ان کے در پر حیاء کو مسمار کر کے دعائیں دے رہی ہے
خیر
ہم دور جدید میں جی رہے ہیں جہاں خطاؤں اور گناہوں کا سرزد ہونا صرف ملائیت ہے ورنہ بقیہ معاشرہ تو بڑا ہی ہمدرد اور ملنسار بنتا جارہا ہے کیوں کہ کوئی کسی کی خواہشات کی تکمیل میں روڑے نہیں اٹکاتا بلکہ ترغیب دیتا ہے راہ دیکھاتا ہے اور عشق و محبت کے نام پر جو بھی خطائیں ہوتی ہیں ان سے چشم پوشی تو اب پورے معاشرے کا طرہ امتیاز بن گیا ہے اب تو والدین کی تعلیم بھی بہتر اور تربیت کا مت پوچھے وہ بھی تو اپنی لاڈلی بیٹیوں اور بیٹوں کے ناز اٹھانے پر خوشی سے جھوم جاتے ہیں اور انہیں آزادی کی وہ کہانیاں سناتے ہیں جس کے ثمر کے طور پر اسپتال کے کچرے گواہ ہیں وہاں کے کوڑے دان بھی پکار پکار کر تہذیب نو کی خوشیوں میں چیختے ہیں پر ہمیں وہ ہر انسان قابل نفرین دکھائی دیتا ہے جو ایسی آزادی کو برا کہئے پر میں اکثر سوچتا ہوں پھر ان لوگوں کو کیوں اداس چہرے ملے ہیں ان کے قلب و جگر سکون کیوں نہیں پاتے جب یہ انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں تو مختلف بیماریاں کیوں سماج میں یہ ہنگامہ آرائی نفرت و کدورت کیسی تو یاد آتا ہے یہ ملا کی کہانیاں ہیں جو وہ سناتا ہے ورنہ گر پچاس ساٹھ سال کا کوئی شخص اب بازار چلا جائے تو جو کہانیاں دادا دادی نانا نانی پریوں کی اور جنات کی سنائے کرتے تھے کہ وہ فلاں ندی فلاں چشمے پر یوں ایسے ویسے ہوتے تھے آج کل وہ سب بازار میں دیکھائی دیتے ہیں بس وہاں ان سے خوف آتا ہے یہاں روح تڑپتی ہے اور اک ہوک سی اٹھ جاتی ہے دل میں کہ ہائے کہیں مجھ پر جن کا پری کا سایہ نہ ہوجائے
اللہ خیر فرما
کیوں کہ سائے کئی قسم کے ہوتے ہیں کچھ سائے پھر مرشد کی مار سے جاتے ہیں تو کچھ کے لئے ڈاکٹر کی دکان پر علاج کیا جاتا ہے اور کچھ اس قدر سخت جن کا علاج نہیں جن کے لئے کوئی وظیفہ نہیں پر ہے ایسا کہ ہر کوئی مدہوش ہے اس سائے میں گرنے کے لئے
دوستو
یہ حاصل مشاہدہ ہے اس کا کسی بھی کہانی سے کوئی تعلق نہیں اس لئے دل پر لیں اور سائے میں گھٹن ہونے سے بچئے رہیں
#فکریات #مشاہداتی_تجزیہ
الطاف جمیل شاہ
Comments are closed.