Baseerat Online News Portal

پھر وہ کن کے بچے تھے کمشنر صاحب ؟؟

محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر

بنارس کے ایک پولیس کمشنر ” ستیش گنیش ” کا ایک وڈیو منظر عام پر آتا ہے۔ جس میں وہ ” اگنی پتھ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ” یہ ہمارے ہی دیش کے ہیں اور ہمارے اپنے ہی بچے ہیں۔ انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی۔ انہیں سمجھایا جا رہا ہے”۔
کیا خوب کہا ہے کمشنر صاحب نے۔ واقعی یہ اپنے بچے ہیں جو ملک کے کروڑوں کی املاک کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔ واقعی یہ اپنے ہی بچے ہیں جو یوپی سمیت ملک کی تیرہ ریاستوں میں آگ سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ واقعی یہ اپنے ہی بچے ہیں جو درجنوں ٹرینوں کو آگ کے حوالے کر چکے ہیں۔ واقعی یہ اپنے ہی بچے ہیں اور انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی کہ پولیس پر پتھراؤ، پولیس اسٹیشنوں کو توڑ پھوڑ، سرکاری اور پرائیویٹ بسوں کو آگ کے حوالے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ واقعی یہ اپنے ہی ملک کے بچے تھے اور انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ہے۔ واقعی یہ اپنے ہی بچے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہئے تھا کہ ملک کو نقصان پہنچا کر آپ ملک کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں۔

واقعی کمشنر صاحب نے بہت اچھی بات کہی لیکن کمشنر صاحب ذرا یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں کہ پھر وہ کن کے بچے تھے جنہیں پتھر باز ، دنگائی ، بلوائی ، آتنک واد اور دیش دروہی کہہ کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا ؟ کمشنر صاحب آخر وہ کن کے بچے تھے جنہیں بنا گواہی ، بنا ثبوت اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے انہیں دنگائی قرار دیا گیا ؟ کمشنر صاحب آخر وہ کن کے بچے تھے جن پر حراست میں لاٹھیاں برسائی گئیں ؟ پولیس نے ہی بے رحمی سے پیٹا پھر اس کی ویڈیو بھی بنائی اور بی جے پی کے ایک منسٹر نے ” رٹرن گفٹ ” کہہ کر اس ویڈیو کو وائرل بھی کیا وہ بچے کس کے تھے کمشنر صاحب ؟

جن کے سروں سے چھت کو چھین لیا گیا آخر وہ کن کے بچے تھے ؟ پریاگ راج میں جس کے چچا اور ابا پر الزام لگا کر جن کے گھر کو بلڈوز کر دیا گیا وہ بھی بنا کسی عدالتی کارروائی کے وہ کن کے بچے تھے ؟ سہارن پور کے صمد اور کیف کس کے بچے تھے ؟ کیا یہ اپنے ملک کے نہیں تھے ؟ کیا یہ اپنے ہی بچے نہیں تھے جس کو حراست میں لے کر جم کر پٹائی کی گئی جبکہ ان کے گھر والے بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس سی سی ٹی وی کی ویڈیو موجود ہے کہ یہ دنگے کے وقت اپنے گھر کے پاس ہی موجود تھے پھر بھی صمد اور کیف کو بے رحمی سے پیٹا جاتا ہے یہ کن کے بچے تھے کمشنر صاحب ؟ پھر وہ بچے کن کے تھے جن کے پوسٹرز 48 گھنٹے کے اندر لگائے گئے ؟ بنا کسی چارج شیٹ داخل کئے اور بنا کسی گواہی کے انہیں دنگائی کہہ کر انہیں ہراساں کیا گیا وہ بچے کن کے تھے ؟ پھر وہ بچے کس کے تھے جو کہہ رہے تھے ” میرا بازو ٹوٹ گیا ہے مجھے مت مارو ” اس کے باوجود سہارن پور کی پولیس اسے پیٹے جار ہی تھی ؟ پھر وہ بچے کس کے تھے جس کے سر پر گولی مار کر جان لے لی گئی ؟ پھر وہ بچے کس کے تھے جس کے سینے میں گولی مار کر اس کی دنیا کو ختم کر دیا گیا اور اس کے والدین کو بے سہارا کر دیا گیا آخر وہ بچے کس کے تھے کمشنر صاحب ؟
واقعی کمشنر صاحب نے بہت خوب کہا ہے کہ یہ ہمارے ہی اپنے بچے ہیں اور ہمارے ہی ملک کے ہیں انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی انہیں سمجھایا جا رہا ہے لیکن سوال تو یہی ہے کمشنر صاحب کہ آخر وہ کن کے بچے تھے ؟ کیا وہ اپنے نہیں تھے ؟ کیا وہ ہمارے اپنے ہی ملک کے نہیں تھے ؟ تو پھر وہ کون تھے ذرا یہ بھی بتا دیں ؟

Comments are closed.