اقبالؒ کی تلاوت

تحریر: قاری محمد حنیف ٹنکاروی (عالی پور)

اللہ تعالی نے انسانوں میں چند خاص بندوں کو پیدا فرمایا ہے، اپنے خاص بندوں کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں کچھ تخلیقی عناصر بھی پیدا فرمائے ہیں۔
علامہ اقبال کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گوناگونی، بوقلمونی، تنوع اور رنگارنگی پیدا کر دی اور جس نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا، ان عناصر میں ایک اہم عنصر وہ ہے جو آج ہرمسلمان کے گھر میں موجود ہے؛ مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں، میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں، اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے،اقبال کا ایمان چونکہ "نومسلم” کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انہیں نہیں ملا ہے، اس لئے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن شریف سے شغف، تعلق اور شعور واحساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت زیادہ ہے، اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نماز صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انہیں دیکھتے تو فرماتے کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے قرآن پڑھتا ہوں، کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر ایک دن اقبال نے پوچھا، اباجان! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے، اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے، اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں۔
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
(نقوش اقبال ص ٥٢)
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے ہوئے گزاری، قرآن مجید پڑھتے، قرآن سوچتے، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا، اس سے انہیں ایک نیا یقین، ایک نئی روشنی اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی، جوں جوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی؛ اس لئے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لدنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبے پر بھی اسے لگائیے، فورا کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔
الغرض آج کے پر فتن حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے، ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی، اور ہم عزت وسربلندی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے، ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے، ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے، اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے کھلے گا۔
اللہ پاک ہمیں قرآن مجید سےآخری سانس تک وابستہ رہنے کی توفیق ارزانی نصیب فرمائے۔ آمین

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

Comments are closed.