Baseerat Online News Portal

مہاراشٹرا میں بھونچال کیوں آیا؟

نوراللہ نور
ان دنوں گرمی اپنے شباب پر ہے اس پر مہاراشٹرا کا سیاسی ڈراما بھی مستزاد ، ملا جلا کر پارہ ایک دم گرم ہے، ادھر باغی ایم ایل ایز پرائیویٹ جیٹ میں ٹور کر رہے ہیں ۔ ادھر سنجے راؤت اور ادھو ٹھاکرے اپنے باغیوں کے خاطر مدارت کے لئے تیار بیٹھے ہیں ، مگر ابھی یقینی نہیں ہے کہ اونٹ کس جانب بیٹھے گا؟
خیر یہ تو بعد کی بات ہے آیئے! اس سیاسی ڈرامے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اور یہ معلوم کرتے ہیں آخر جو نیتا کبھی ادھو جی کے بغل گیر ہوا کرتے تھے آخر ان کو دفعتاً اس کا احسا کیسے ہوا کہ ادھو ٹھاکرے بالا صاحب ٹھاکرے کے مشن سے انحراف کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے کیونکہ جو شیو شینا پہلے تھی وہ اب بھی وہی ہے اور اس کے منشور اب بھی وہی ہیں جو بالا صاحب کے تھے جیسا کہ پارٹی کے ترجمان” سنجے راؤت” اپنے اعلانیہ میں کہ دیا ہے۔
اس پورے ڈرامے بازی کی حقیقت یہ ہیکہ ان باغی لیڈران کو اس سیاسی انتقام کے لئے مہرا بنایا جا رہا ہے جو ہزیمت زیر اقتدار پارٹی کو ریاستی انتخابات میں اٹھانے پڑے تھے ، ان کے کندھے پر بندوق پر رکھ کر اس اپوزیشن پر نشانے سادھ رہے ہیں جو ان کے ایجنڈے میں مخل ہو رہی ہے ، جو ان کے ہندو توا اہداف میں روڑے اٹکائے کھڑی ہے، اور یہ ممبئی سے گجرات اور گجرات سے گوہاٹی کا ٹور در اصل اس قربانی کا معاوضہ ہے جس سیاسی چپقلش کے لئے ان کو بلی بکرا بنایا جا رہا اور استعمال کیا جا رہا ہے۔
در اصل یہ انتقام کی خفیہ کاروائی ہے جس کو ہندتوا کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے، ورنہ ان ایم ایل ایز کے اوپر کروڑوں روپیہ صرف کرنا ، ان کو سیکورٹی فراہم کرنا اور ان باغیوں کا استقبال چہ معنی دارد؟
یہ اتھل پتھل ادھو سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ہے تاکہ دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی بے لگام ہوکر حکومت کریں اور امن و شانتی کو غارت کریں۔
سچائی یہ ہیکہ جس مخصوص ہندو تو کو وہ فروغ دینا چاہ رہےہیں ادھو اس سے ہٹ کر ایک سیکولر طریقے سے حکومت کر رہے ہیں جو ان کو ہضم نہیں ہو رہا ہے، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ شیوشینا کا بنیادی نظریہ بدل گیا کیونکہ حجاب معاملے میں آدتیہ ٹھوکرے کے جانبدار بیان سے ایک جھلکی دیکھنے ملی تھی مگر دیگر ریاستوں کے مقابلے میں حکومت اچھا کام کر رہی ہے اس نوعیت سے سراہا جا سکتا ہے۔
دوسری وجہ جس کی وجہ سے ادھو ٹھاکرے کو ان مراحل سے گزرنا پڑا وہ یہ ہیکہ ہر محاذ پر ان کی مخالفت کی اور کبھی بھی ان کے ایجنڈے کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ جمہوریت کو تھوڑی رمق باقی رکھی ، ان کے ہر فتنہ پرور ریشہ دوانیوں سے خود کو اور اپنی ریاست کو دور رکھا اپنے۔اس رویہ کی وجہ سے انہوں نے ان کی مخالفت مول لے لی۔
تیسری چیز جو ان کی پریشانی کا باعث بنی یہ ہیکہ وہ زیر اقتدار پارٹی کے ہمنواؤں کے ساتھ خود ادھو ٹھاکرے کا نیز ان کے نیتاوں کا بھی رویہ تلخ رہا اور ان کی کسی بھی غلطی پر کوئی رحم نہیں دکھایا بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کی گرفت کی ” سمیر وانکھیڈے” کی گرفتاری اور ” کنگنا کے گھر کی مسماری” اسی کی ایک کڑی ہے جس نے ان کی انا کو ٹھیس پہونچائی تھی۔
"مہا وکاس اگھاڑی” حکومت کا گناہ یہ ہے کہ اس نے زیر اقتدار پارٹی کی ترجمانی کرنے والے صحافی” ارنب گوسوامی” کی غلطی پر کوئی نرمی نہیں برتی اور کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ کئے بغیر چند دن کے لئے ہی سہی مگر جیل کی ہوا کھلائی جو ان کو للکارنے اور ان سے دو دو ہاتھ کرنے کی طرف مشیر تھا، اسی طرح اذان اور ہنومان معاملے میں ان کی حمایتی ایم ایل اے” نونیت رانا” کے ساتھ جو رویہ انہوں نے روا رکھا وہ انانیت میں مخمور پارٹی کے زخم پر نمک چھڑکنے کےلئے کافی تھا۔
اور ان سب سے بڑھ کر آئندہ آنے والے لوک سبھا الیکشن کی راہ ہموار کرنی ہے جس کے لئے اسے ادھو کا یہ قلعہ تسخیر کرنا پڑے گا جو انہیں معاشی طور پر ان کو مستحکم کرے گا اور بنا کسی رکاوٹ کے اپنا کام انجام دے سکیں!
یہ وہ محرکات ہیں جو ادھو سرکار کے لئے درد سر بن گئے ہیں اور ان کو یہ دن دیکھنا پڑا۔ مگر ابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی کیونکہ ابھی شرد پوار اور سنجے راؤت کا آخری پتہ پھینکنا باقی ہے اس لئے پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!

Comments are closed.