Baseerat Online News Portal

کھلا خط بنام علماء و دانشور

 

از طرف قوم مسلم

 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 

امید ہے کہ آپ سب اصحاب علم و فن دانشوران قوم و ملت بخیر ہوں گئے اللہ آپ سب کو اپنے حفظ و اماں میں رکھے

آئے جبال العلم والو تمہاری قوم خیریت سے نہیں ہے یہ اضطراب میں ہے اس کا سکون غارت گری کی نظر ہوگیا ہے

تمہاری قوم کا انگ انگ زخموں سے چور سسک بلک رہی ہے زخموں کا درد اس قدر سخت کی جی گھبرائے جارہا ہے ہے

آئے دانشوران قوم

میں وہ بدنصیب قوم ہونے کا اعزاز رکھتی ہوں جسے سو ڈیڑھ سو سال سے مسلسل کچلا جارہا ہے جو اپنے بچوں کو دفن کر کر کے تھک چکی ہے میں وہ قوم ہوں جو مسلسل بیٹیوں کی دلدوز چیخیں سن سن کر ٹرپ رہی ہے میں اپنی ماؤں کا انتظار دیکھ دیکھ کر اداس ہوں میں ان یتیموں کی بے کسی پر ملول ہوں جن کے نام سے میرے بچے خوب ترقی کرگئے پر یتیم کی آنکھیں اب بھی اداس بہت اداس ہیں یتیم بیٹیوں کے نام پر میرے بچوں نے مجھے خوب بیوقوف بنایا پر ان یتیم بچیوں کے ہاتھ پیلے تو نہ ہوسکے پر ان کا لباس سفید ہوگیا میں تمہیں کیا کیا سناؤں

میں وہ قوم ہوں جو اپنے وجود کے لئے مسلسل زیر عتاب ہے میں سب سہہ رہی ہوں پر کیا کروں مجھ پر اپنے ہی لوگوں نے وہ ستم کئے کہ جنہیں بیان کروں تو اک بہت بڑی تعداد چاہئے اوراق کی سیاہ کرنے کو خوب مسلا کچلا مجھے اور حیران ہوں طعن بھی مجھ پر ہی کہ میں بیوقوف یہودی کم ہمت بدترین شکست خوردہ قوم کے نام سے مجھے خوب کوسا گیا ان بچوں کی زبان سے جن کی بقاء کے لئے میں نے خود کو داؤ پر لگا دیا

اچھا یہ تو اپنی دنیا کے وہ طالب تھے جنہیں حیاء و پاکیزہ معاشرے کی تقریر تو آتی تھی پر اس کو آزمانے کا انہیں کوئی شوق نہیں تھا جس کا ثمر یہ نکلا وہ دنیا بنا گئے مجھے برباد کرکے

جناب علماء کرام

میں آپ سے آج اس لئے مخاطب ہوں امیر کبیر کی آمد سے پہلے مجھے اسلام سے وہ شناسائی نہ تھی جو ان کہ آمد سے ہوئی میں نے اپنا ماضی چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں رہنا پسند کیا جہاں اخوت تھی محبت تھی عقیدت بھائی چارے کی تعلیم تھی میں اسی اسلام کے نام پر کئی بار روند دی گئی پر میں نے اس دامن کو تھامے رکھا سب مسلم ہوئے تو وہ دن مجھے اب یاد آرہے ہیں جب صبح دم آپ کے اسلاف اندھیری راتوں میں مساجد کا رخ کرنے سے پہلے ٹھنڈے چشموں پر جاکر نہا دھو کر آتے اور مساجد میں اللہ کی عبادت کرتے ان کی نگاہیں اکثر دعاؤں میں بھیگ جاتی تھی وہ انپڑ تھے انتہائی سادہ مزاج پر دین و ایمان کے معاملے میں بڑے حساس اور اعمال کا مت پوچھے شرم و حیا بھی تھی صبح کئی گھروں سے یا تو تلاوت قرآن کی صدائیں بلند ہوتی یا نعت درود وغیرہ کی پرسوز صدائیں پھر ان صداؤں پر پہرے لگئے علماء کے تو تلاوت بلند نہ ہوئی خیر مجھے سب اچھا لگا بحث و مباحثے سے بچتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں

 

تم کیا جانتے ہو قوم کیا ہے اور اس کی تعبیر کی کیسے جاتی ہے وہ دن یاد ہیں جب تمہارے بڑے جن تم ائمہ کرام کہتے ہو یا محدثین عظام و مفسرین کرام انہوں نے قوموں کو کیسے ترتیب دیا کیسے اپنے ممالک میں اپنی ہم نسل قوم ہم زبان ہم شکل ہم مذہب اقوام کی رکھوالی کی کیسے اپنی قوم کو بلندیوں کو چھونے کے قابل بنا دیا یاد ہے نا پوری دنیا اس کی شاہد ہے پر جب کچھ بچوں نے قوم کو ذلیل کیا تو غرناطہ دیکھ لینا قرطبہ و بغداد کو سمجھ لینا

میری بربادی کیا کم تھی کہ اب آپ علماء نام کے لوگ بھی برباد کرنے پر اڑ گئے

تم تو ایسے نہ تھے یہ کون سی مسجدیں ہیں مسلک کے نام پر افکار کے نام پر کیا کوئی میری بھی مسجد ہے جہاں میں نماز پڑھ سکوں کیا مصائب کے زمانے میں آلام کے ایام میں بھی میں نے آپ کو نہیں سنا آپ کا ہاتھ نہیں بٹایا تو کیوں میں نصف کافر ہوئی نصف مشرک ہوئی نصف فاسق مرتد فاجر ہوئی کیا اس سب میں تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں میں جہنم زار ہوں بنایا کس نے بتاؤ گئے میرے چند بچے ارتداد کا شکار ہوئے مواقع کیسے پیدا ہوئے یہ یہاں بے حیائی بے شرمی ہے زنا سود شراب بدکاری تہذیب مٹ رہی ہے ارے معاشرہ تباہ ہورہا ہے تو یہ سب میری بدبختی تم بتاؤ نا تم نے کیا کیا لباس فاخرہ جبہ و دستار کو لائے کہاں سے تم نے مجھے کیا دیا ذرا بتاؤ گئے سوائے مجھے ذلیل کرنے کے تم نے کیا کیا ہے بتاؤ نا مساجد میرے خرچے پر بنی تم کو میں پال رہی ہوں گر میں کافر ہوں تو آپ کیا ہیں میں زندیق ہوں آپ کیا ہیں مجھے اس دلدل میں دھکیلا کس نے مجھے اس قدر رسوا کیا کس نے مجھ پر طعن کرنے سے پہلے ذرا سوچ کر بتاؤ کیا تم اس لائق ہو کہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کل میدان حشر میں کھڑے ہوسکو گئے ذرا قسم لے کر کہو

ارے میں جانتی ہوں

بس میرے بچو

التماس ہے میں زخموں سے چور ہوں برباد ہوچکی ہوں شاید آنے والے کچھ سال بعد کشمیری قوم لفظ گالی بن جائے اور تم شرماؤ اپنا تعلق ظاہر کرنے میں بھی

دنیا کہاں سے کہاں گئی پر میں اب بھی وہیں سسک رہی ہوں چند یوم محترم نعمان نوشہری اور ساحل احمد صاحب کی ہنگامہ آرائی پر خوب نوک جھونک ہورہی ہے اور اب پوری دنیا میں چرچا ہے ٹھیک ہے پر اس سب میں بھی مجھے ہی مطعون کیا جارہا ہے کہاں ہیں میرے وہ علماء کرام جن کی آہ سے زمین تھرا جاتی ہے جن کا تبحر علمی اپنی مثال ہے جن کا علمی قد بلند ہے کیا آئے اصحاب فضل و کمال

میں یوں ہی روندی جاتی رہوں گی کیا میری بقاء و فلاح و کامرانی کی لئے آپ اپنے لب وا کریں گئے یا کہو کہ تم مجھے برباد کرنے پر تلے ہو

تو سنو

واللہ کل روز قیامت میں میں اپنی بے بسی اپنا دکھ اپنا کرب اور تمہارا سلوک سب ذرا ذرا اللہ کی بارگاہ میں بیان کروں گی اور نالہ بلند کروں گی یا ربی انہوں نے مجھے خوب مسلا ذلیل کیا رسوا کیا یہ کیسے تیرے پاک بندے ہیں کہ میں لٹ رہی تھی اور یہ آپس میں دست گریبان تھے کیا میرے وجود کی بقاء کی ذمہ داری ان پر نہ تھی جو مِیں برباد ہوکر رہ گی اور ان کے ماتھے پر اک شکن کیا ان کی مقدس آنکھوں سے اک آنسو بھی نہ ٹپکا میری بے بسی و لاچاری دیکھ کر

یہ بس اپنے پیٹ اور اپنی جیب کے لئے ہمہ تن مصروف تھے اور میں برباد ہورہی تھی گر انہیں یارب جنت ملے گی تو مجھے دنیا میں جہنم زار کیوں بنایا گیا

امید ہے انصاف ملے گا

بارگاہ الہی سے

والسلام

آپ کی وہ قوم جسے تم نفرت کرتے ہو

سنو جب میں نہ رہوں گی تم بھی خود بخود مٹ جاؤ گئے اور یاد رکھو تمہارے مجھ پر احسان نہیں ہیں میں نے تم پر احسان کیا ہے کہ تمہیں اپنا نام دیا ہے ذرا سنبھل جاؤ اور ایک ساتھ کوشاں ہوجاؤ کہ تم اپنی قوم کی خدمت ہر سطح پر کرو گئے نام تمہارا بھی ہوگا اور یہ مساجد میں جھگڑے چھوڑ کر اخوت کا بیان ہوجائے اور خوب ترقی کرنے کا من بنائے میں ہوں تم ہو پر گر تم نہ ہو تو میرا وجود کیا ہے بس ایک بار سوچ لو

آئے میرے بچو

ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ان ہنگاموں کے ہوتے ہوئے تم اپنی ہی ایک پوری نسل برباد کر دو گئے وہ کفر کی وادئ میں پہنچ جائے گی پھر کیا فائدہ تمہاری اس ہنگامہ آرائی کا جس پر تم خود کو مومن مخالف کو بدی کا پیامبر اور مجھے ذلیل قوم کہتے ہو

خیر

فی امان اللہ

الطاف جمیل شاہ

Comments are closed.