Baseerat Online News Portal

فتاویٰ علمائے ہند 32/ویں جلد (تاثرات و دعائیہ کلمات) از: مفتی محمد زبیر ندوی

تمام  علومِ اسلامیہ میں فن فقہ کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ ہر مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اس فن سے اس قدر مربوط ہے کہ کسی بھی طور اس سے مفر ممکن نہیں، ماں کی آغوش میں آنے سے قبر کی آغوش میں جانے تک کوئی لمحہ یا ثانیہ نہیں گزرتا جو اس سے خالی ہو؛ اسی لیے اس فن کے سلسلے میں خصوصی فضائل قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں، فقہ کو پروان چڑھانے بلکہ اس میں نیا خون شامل کرنے میں ہر دور کے مفتیان کرام اور اصحاب افتاء کا بڑا اہم اور خصوصی کردار رہا ہے، فقہ کی خاص اصطلاح "فتاوی و واقعات” پر لکھی گئی کتابیں اس کا بہترین نمونہ ہیں۔

یوں تو ہر دور میں اس پر زبردست خدمات ہوئیں؛ لیکن سترہویں صدی عیسوی کے صنعتی و ثقافتی انقلاب کے بعد دنیائے شرق و غرب میں جو حیرت انگیز انقلابات آئے اور مختلف شعبہائے حیات میں جو ہماہمی و رنگا رنگی پیدا ہوئی اور مسائل کا جو ہجوم کھڑا ہوا وہ اس سے قبل کی صدیوں میں نظر نہیں آتا، حالیہ یہ تین صدیاں دور گزشتہ کے خلافت امویہ اور خلافتِ عباسیہ کے ابتدائی دور سے بہت حد تک مماثل ہیں کہ اُس صدی میں بھی بے شمار نت نئے مسائل نے جنم لیا تھا اور اِس دور میں بھی نوع بنوع مسائل پیدا ہوئے، اور جس طرح اُس دور کے فقہاء اسلام نے بڑی دقت نظری، عرق ریزی و جانفشانی سے تمام مسائل کے حل پیش کئے تھے اِس دور کے بالغ نظر فقہاء نے بھی اسی نہج پر استنباط و استدلال کے ساتھ اس کاز کا بیڑا اٹھایا۔

اس پوری کد و کاوش میں تمام عالم اسلام کے فقہاء کا بالعموم اور فقہاء برصغیر (ہند و پاک) کا بالخصوص بڑا حصہ رہا، اس دور کے فقہاء نے اپنی کتب فقہ وفتاویٰ اور فقہی تدقیقات و تحقیقات میں جو کام کیا وہ کار نہیں بلکہ کارنامہ ہے، ایک ایک فرد کا کام پوری اکیڈمی کے کام کے برابر ہے، بالخصوص اہل حق علماء وفقہاء کی خدمات آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں، ان فقہاء و مفتیان کرام کے فتاوی کا سرمایہ اتنا عظیم اور کثیر ہے کہ انہیں اپنے پاس جمع کرنا کارے دارد۔

اس مسئلہ کے حل کے لیے جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈالی وہ محترم و مکرم جناب مفتی اسامہ شمیم ندوی صاحب ہیں جو فی الحقیقت موفق من اللہ شخص ہیں، انہوں نے 200/ جلدوں (60/اردو 60/عربی 80/انگلش) میں "فتاویٰ علمائے ہند” کی ترتیب و تدوین کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور حضرت اقدس مفتی انیس الرحمٰن قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی علمی معاونت سے اس کارواں کو آگے بڑھانا شروع کیا، اور آج الحمدللہ ثم الحمد للہ اس عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا کی 32/ جلدیں آپ کے سامنے ہیں، یہ 45/متداول کتب فتاوی کا ایسا مجموعہ ہے جس میں مکررات کو حذف کر کے تمام مسائل جمع کر دیئے گئے ہیں بالفاظ دیگر یہی ایک کتاب 45/ کتب فتاوی کی ضخیم جلدوں سے بے نیاز کرنے کو کافی ہے؛ گویا یہ موسوعہ ہر کتبخانے کی زینت بھی ہے اور ہر طالب فقہ کی ضرورت بھی، یہ ماضی قریب کی دو صدیوں کا فقہی ذخیرہ بھی ہے اور تحقیق و تنقیح کا خزینہ بھی، اس میں علمی تشنگی سے سیرابی کا سامان بھی ہے اور کاروان علم و فن کی داستان بھی، ان علم دوست حضرات نے اپنی زندگی اسی سرمایۂ گرانمایہ کو تیار کرنے میں اس امید پر لگا رکھی ہے کہ:

حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیئ خویش کہ کارے کردم

اخیر میں دل کی گہرائیوں اور نم آنکھوں سے دربار خداوندی میں دعا گو ہوں کہ بار الہا ان کی کوششوں اور اعلیٰ کاوشوں کو قبول عام و تام فرمائے، "فتاوی علماء ہند” کے لفظ لفظ اور حرف حرف پر ان کو خیر سے مالا مال کرے، اور جلد از اس عظیم کارنامہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت عطاء فرمائے اور دامے، درمے، سخنے، قدمے اس میں ہمیں اپنا حصہّ لگانے کی توفیق عطا فرمائے، بالخصوص حضرت مولانا انیس الرحمٰن صاحب، مولانا اسامہ شمیم صاحب اور تمام معاونین و محققین اور اصحاب افتاء کو قبول فرمائے۔

ایں دعاء از من و از جملہ جہاں آمین باد

راقم آثم
محمد زبیر ندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

Comments are closed.