وقت کے ساتھ چلنے والے لوگ! تحریر: عمر فراہی

اکثر لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ چلیے۔ ایک مضمون کے حوالے سے کسی نے ہمیں بھی مشورہ دیا کہ وقت کے ساتھ چلیے۔ انہیں شاید ہمارا دین مذہب اور قرآن کے حوالے سے باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا۔سوشل میڈیا پر بہت کچھ ہم بھی لوگوں کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے لیکن برداشت کرتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔جس کی جس ماحول اور معاشرے میں پرورش اور تربیت ہوتی ہے وہ اکثر اسی کے مطابق سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ وہ وقت کے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔ وہ اکثریت اور بھیڑ کے ساتھ چلنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔بہت ہی مشکل اور جرآت کا کام ہے وقت کے مخالف چلنا اور اپنے خیالات کے بنائے ہوئے مجسمے کو توڑ دینا۔اب ہم کسی کو یہ بھی کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ وقت اور اکثریت کے ساتھ چلنا کفر اور شرک کی فطرت ہے ایمان کی نہیں۔ نہ تو حضرت نوح وقت کے ساتھ چلے نہ حضرت ابراہیم نہ موسی اور نہ حضرت عیسی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انہوں نے تنہا وقت کے دھارے کو موڑ دیا۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا اور نہ ہی وقت ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اہل کتاب اور اہل ایمان کی غفلت سے کسی زمانے اور وقت میں وہ جو غلط لوگ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں وہ وقت میں زہر بو کر ایک نسل اور زمانے کو غلط راستے پر موڑ دیتے ہیں۔ اکثر راستے بھی اتنے جاذب اور خوبصورت ہوتے ہیں کہ لوگ اسے ہی وقت کی ضرورت سمجھنے لگتے ہیں؛ لیکن کہیں نہ کہیں جو بے چینیاں ہوتی ہیں وہ انسانوں کو مطمئن نہیں ہونے دیتیں لیکن ایسے حالات کو محسوس کرنے والوں کی تعداد بھی قلیل ہوتی ہے۔ پھر بھی اکثریت غلط راستے سے ہی اس کا حل ڈھونڈھنا چاہتی ہے؛ کیوں کہ وہ رائج الوقت عیش عشرت کی زندگی سے محروم نہیں ہونا چاہتی۔ قرآن ہمیں انہیں وقت کی قوموں اور زمانوں کی خرابی سے آگاہ کرتا ہے جب لوگوں پر عاد ثمود اور فراعنہ جیسی ترقی یافتہ طاقتور اور جابر قومیں غالب تھیں۔ اچھے لوگ اگر وقت کے ساتھ چلتے ہوئے ان کی تہذیبوں کو اپنا لیتے تو ان پر بھی آگ اور پتھر کی بارش ہوجاتی۔ شاید اسی لئے ایسی بستیوں سے الگ کر لینے والوں کو مہاجر کہتے ہیں۔ انبیاء کرام لوگوں میں انہیں فتنوں سے آگاہ کرنے کیلئے بھیجے گئے۔ اکثر قوموں نے وقت کے ساتھ چلنے کو ہی ترجیح دی اور ان کی دعوت کو رد بھی کر دیا لیکن جو وقت کے دھارے کو موڑنے میں کامیاب ہوۓ انہوں نے ہی تاریخ رقم کی اور تاریخ کی زینت بنے ۔دنیا ایک بار پھر جدید مادی اور معاشی ترقی اور انقلاب کے فتنے کی زد میں ہے اور اکثریت وہ خواہ اہل ایمان کی ہی کیوں نہ ہو فتنہ کو ہی اسلام سمجھ رہی ہے ۔تعجب تو یہ ہے کہ اچھے اچھے علماء سمجھتے ہوئے بھی وقت کے ساتھ چلنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں! آپ کہہ سکتے ہیں کہ وقت اچھا ہے یا برا اس کی شناخت کیسے ہو۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کانا آدمی ہر شخص کو کانا ہی نظر آتا ہے ۔اسی طرح زمانے کے نشیب وفراز اور وقت کے حکمرانوں کی بدعنوانی اور بے ایمانی بھی دن کی طرح روش ہے۔ حال کو دیکھنے کیلئے یا اس کی شناخت کیلئے تاریخ کے مطالعے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ایک شخص صحابہ کرام پر نقد کر سکتا ہے اسے محمد بن سلمان اور آل سعود میں خرابیاں نظر آتی ہیں تو کیا وہ فاشسٹ طاقتوں کے عزائم اور سازشوں سے واقف نہیں اور وہ ان کی تعریف کے پل باندھے ۔سب کچھ عیاں ہونے کے بعد بھی کسی کیلئے کچھ تو کسی کیلئے الگ پیمانہ متعین کیا جائے تو اسی کو موقع پرستی اور وقت کے ساتھ چلنا کہتے ہیں۔ یہ کتمان حق ہے اور یہی تلبیس حق و باطل کا فتنہ ہے۔ اللہ ہم سب کو اس فتنے سے محفوظ رکھے ۔اس وقت ہم ایمان و یقین کے بہت ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ چلنا تو آسان ہے لیکن اپنی اسلامی غیرت اور حمیت کی حفاظت کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

Comments are closed.