Baseerat Online News Portal

جناب شہزاد احمد صاحب مرحوم کی شاعری تحریر: مفتی محمد صابر حسین ندوی

اس راہ سے گزرے تھے کبھی اہل نظر بھی

اس خاک کو چہرے پہ ملو آنکھ میں ڈالو
جو خاک کو چہرے پر ملنے کی بات کرے، ایک حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا شخص، عشق میں چور، شکستہ دل اور غمگین جگر کا مالک، سوز قلب اور مجروح احساس و جذبات میں تَپا ہوا، دل لگی و دلبری میں مگن انسان زمانے سے پتھر کھایا ہوا، گلی کوچے سے بھگایا ہوا، محبوب کی وادیوں میں جا کر رسوائی کا جام پیا ہوا، اس کی خاک کو ملکر اپنی پیشانی پر چھپکے سے نکل جانے والا، دل کے احوال سناتے ہوئے سینہ کی تپش دبا کر، عشق کی چنگاری پر ہاتھ رکھ کر، اٹھتے شعلے پر دل رکھ کر گذر جانے والے کی زبان کیا ہوگی؟ جو کہتا ہے:
نیند آئے تو اچانک تری آہٹ سن لوں
جاگ اٹھوں تو بدن سے تری خوشبو آئے
ایسا انسان کسی سے اپنے غم کیسے بانٹے گا، کس طرح وہ کسی کو خطاب کرے گا؟ وہ کیسے بتائے گا کہ اب اس کے پاس ضبط نہیں، آنکھوں سے آنسو بہے جاتے ہیں، دل ہزار ٹکڑے ہو کر بکھرا جاتا ہے، مرادیں نامرادی میں بدل کر دل کو زخمی کر رہے ہیں، سینے پر ہر پرزہ اب زخم خوردہ ہے، وہ جو کبھی مرہم تھا، جس کا دیدار، جس کی نگاہ اولیں، جس کی ہلکی و مدھم خوشبو اور سریلی آوا نغمگی گھولتی تھی، وہ اب موجود نہیں، دل کا ہر درد کراہ رہا ہے، تنہائی کی دنیا کا رَسیا ہوا جارہا ہے، اب بھیڑ بھاڑ، لوگوں کا ہجوم اچھا نہیں لگتا، وہ کہتے ہیں:
شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو
جن راہوں پر ان کے نقش تلاش کرتے تھے، قدموں کے نشانات چومتے تھے، جن راستوں پر بیٹھ کر فضاؤں کو محسوس کرتے تھے، جسم کا رواں رواں جن سے معطر تھا، روح جن سے پاک تھی، نفس جن سے شاد و آباد تھا، طبیعت جن سے سبز وشاداب تھی وہ سب کچھ کسی بنجر، ریگستان اور کڑکتی دھوپ کی لپٹ بن گئے ہیں، مگر یاد ماضی میں الجھا انسان اپنا درد کہے تو کیسے کہے! یہ اجڑا پن، یہ دیوالیہ پن، یہ بیگانگی اور یہ دیوانگی کا بھلا علاج کرے تو کیسے کرے، الفاظ سامنے ہیں، مگر دل ہر ایک پر نگاہ ڈال کر چھوڑ دیتا ہے، دل کا رستا خون انہیں نظر انداز کر دیتا ہے، وہ کہتا ہے بھلا یہ کیسے مجھ کو سما لیں گے، میرا درد بانٹ لیں گے، الفت کی شب اور ہجر کی صدی کا تذکرہ سمو لیں گے، نہیں / نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، مگر تبھی میر، غالب اور عاجز جیسے شعرا کو پڑھئے تو دل تھم جاتا ہے، انہیں میں سے ایک شاعر شہزاد مرحوم اور ان کی یہ غزل بھی ہے:
یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے
یہ عظیم شاعر جناب شہزاد احمد صاحب مرحوم ہیں، آپ نے ١٦/ اپریل ١٩٣٢ء کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے ١٩٥٢ءمیں نفسیات اور ١٩٥٥ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے، اس دوران ان کی ادبی خدمات بہت نمایاں رہیں، چنانچہ شہزاد احمد کی شاعری کی پہلی کتاب ”صدف“ ١٩٥٨ءمیں شائع ہوئی۔ اس کے بعد چھپنے والی کتابوں میں۔ ”جلتی بجھتی آنکھیں“…. ”ادھ کھلا در یچہ….”خالی آسمان“ ”بکھر جانے کی رُت“، ”دیوار پر دستک“…. ٹوٹا ہوا پُل“…. ”کون اسے جاتا دیکھے“…. پیشانی میں سورج“ اترے مری خاک پر ستارہ” اور مٹی جیسے لوگ“ بہت مشہور ہیں؛ پنجابی شاعری کی کتابیں اس سے الگ ہیں، شہزاد احمد کی نثر کی کتابوں میں ”مذہب، تہذیب اور موت“…. ”ذہن انسانی کا حیاتیاتی پس منظر“…. ”سائنسی انقلاب“ اور ”دوسرا رخ “ وغیرہ شامل ہیں۔ نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی ایک کتاب ان سے ترجمہ کرائی جو ”ارمان اور حقیقت“ کے نام سے شائع ہوئی۔ تخلیقی رویے، سائنس کے عظیم مضامین اور نفسیاتی طریقِ علاج میں مسلمانوں کا حصہ ان کی ترجمہ شدہ کم از کم دس کتابیں اب بھی زیرِ اشاعت ہیں، شہزاد احمد شعر و نقد شعر کے علاوہ نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کر چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں، آپ کا انتقال یکم اگست ٢٠١٢ء کو لاہور میں ہوا، وہ اپنے سینے کی بات کو دفن کئے در گور کر دئے گئے، وہ خود کہتے ہیں:
گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں
جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں
*شہزاد صاحب مرحوم کی شاعری میں عجب رومانیت ہے، کشش اور جاذبیت ہے، وہ لفظوں میں شکایت پروئے ہوئے ہیں تب بھی دلوں کو کھینچ لیتے ہیں، ان کے احساسات میں قاری کے جذبات بھی شامل ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے، ایک ایسا ہی کلام پڑھیے!
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
اس سلسلہ میں یہ غزل ضرور پڑھنی چاہیے، طبیعت مچل اٹھے گی، ایک طرف بے رخی اور دوسری طرف پھر سے اٹھ جانے اور قدم اٹھا لینے کی ترغیب دونوں جمع کردیا گیا ہے، اس میں حوصلہ افزائی بھی گئی ہے؛ گویا یہی زندگی ہے کہ ہم شکستہ ہوں مگر بکھرے ہوئے ٹکڑے جوڑ کر اٹھنے کی بھی قوت رکھیں، اگر آپ خود نہیں اٹھتے تو کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا، شہزاد صاحب کی ایسی متعدد نظمیں، غزلیں اور متفرق اشعار ریختہ پر جمع ہیں، اصحاب ذوق رجوع کریں اور یہ بہترین غزل پڑھتے جائیں!
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے
انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آکے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخِ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے

[email protected]
7987972043

Comments are closed.