خانوادۂ حسنی کا اک چراغ اور بجھا

محمد طاہر ندوی
سب ایڈیٹر بصیرت آن لائن و ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی
رابطہ نمبر: 7667039936
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مایہ ناز استاذ، حضرت مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے، مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ نظر، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر سیدی و مرشدی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے قلب و جگر، خوانوادۂ حسنی کے چشم و چراغ، معروف صاحبِ قلم و قرطاس، صاحبِ فکر و عمل، صاحبِ طرزِ تحریر، مشہور سوانح نگار، کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف، ماہنامہ ” رضوان ” لکھنؤ کے معاون مدیر، دارِ عرفات رائے بریلی کے ترجمان ” پیام عرفات ” کی مجلس ادارت کے رکنِ خاص، مجلہ” تعمیر حیات ” لکھنؤ کے نائب مدیر، حضرت مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ آج دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ ( اِنا لله و اِنا اِلیه راجعون)
ابتدائی حالات
حضرت مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ٢٨ جمادی الاولیٰ ١٣٩١ ھ المطابق ٢٢ جولائی ١٩٧١ ء کو سر زمین لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ایک مکتب سے حاصل کی۔ پھر ابتدائی عربی درجات کی تعلیم کے لئے مدرسہ ضیاء العلوم تکیہ کلاں رائے بریلی تشریف لے گئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے جہاں آپ نے عالمیت کی سند حاصل کر کے مدرسہ ضیاء العلوم سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔
آپ کی عظیم ترین خدمات
حضرت مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے شخص تھے جو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بڑی ضخیم ضخیم کتابیں اور سوانح عمری جو کئی کئی جلدوں میں ہیں اتنی کم عمری میں تصنیف و تالیف فرما دیں جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوئی ہیں۔
( عائشہ بی )
آپ نے ہمشیرۂ مفکر اسلام، ریاض الصالحین کی اردو مترجم، محترمہ سیدہ امۃ اللہ تسنیم رحمھا اللہ کے حالات و واقعات اور علمی و روحانی کمالات پر ” عائشہ بی ” کے نام سے ٣٢٨ صفحات پر مشتمل ایک عظیم سوانح لکھی جو سالوں سے علمی و روحانی حلقوں میں جس کی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔
( تذکرہ حضرت مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ )
اسی طرح آپ نے ” تذکرہ حضرت مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ” کے نام سے ٢٩٦ صفحات پر مشتمل ایک سوانح حیات لکھی، جس میں آپ نے ان کی خاندانی، سوانحی، دعوتی اور تبلیغی خدمات کا ایک اجمالی جائزہ لے کر سپرد قرطاس کر دیا۔
( سیرت داعی اسلام حضرت مولانا سید عبد اللہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ )
آپ کی عظیم خدمات میں ایک معلم، مبلغ، داعی، رہبر شخصیت، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فاضل، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمان و خلیفہ، ان کی تحریک ” پیام انسانیت” کے قائد اور ملت کے حکیم و مصلح اور مرشد ہستی کی سوانح حیات بھی داخل ہے جسے زمانہ ” سیرت داعی اسلام حضرت مولانا سید عبد اللہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ” کے نام سے جانتی ہے۔ جس میں شخصی احوال، علمی کمالات، ارشاد و تربیت، دینی، دعوتی و تبلیغی جد و جہد، ملکی و بین الاقوامی اسفار، تحاریر و تقاریر کے زریں اقتباسات اور ان کے تئیں علمی حلقوں میں پائے جانے والے قیمتی تاثرات کا ایک باب بھی ہے جو آپ کے مقام و مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔
( تذکرہ مولانا عبد الباری ندوی بھٹکلی رحمۃ اللہ علیہ و سوانح حضرت مولانا ابرار الحق حقی رحمۃ اللہ علیہ )
اسی طرح آپ نے ایک عظیم داعی، خطیب، مبلغ، معلم، مربی شخصیت پر قلم اٹھایا اور ” تذکرہ مولانا عبد الباری ندوی بھٹکلی رحمۃ اللہ علیہ” کے نام سے ٢٠٠ صفحات پر مشتمل ان کے ایمان افروز و روح پرور حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح آپ نے ” سوانح حضرت مولانا ابرار الحق حقی رحمۃ اللہ علیہ” کے حالات زندگی کو ٢٣٦ صفحات پر لکھا۔
( تاریخ اصلاح و تربیت )
آپ کی عظیم ترین خدمات میں اگر ” تاریخ اصلاح و تربیت ” کا تذکرہ نہ ہو تو یہ ظلم عظیم کے مرادف ہوگا۔ جس میں آپ نے محسنِ عالم، خیر القرون کے مربی اول، دنیائے انسانیت کے مصلحِ اعظم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، خلفاء راشدین کے احوال، خانوادۂ نبوت کے چشم و چراغ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کے تذکرے کو ٦٥٦ صفحات پر جمع فرما دیا ہے۔
( تجدید معاشرت )
آپ کے علمی کمالات اور تصانیف و تالیفات کا سلسلہ کافی طویل ہے جس میں” تجدید معاشرت ” ( از مولانا عبد الباری ندوی بھٹکلی ) نامی کتاب بھی شامل ہے، جس میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقائد، دیانات، عبادات، خاندانی و دیگر معاشرتی معاملات میں کن کن بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور کن تجدیدی کوششوں کو واضح فرمایا ہے۔ آپ نے اس کتاب کی تحقیق و مراجعت اور تعلیق و تربیت جدید کرکے ایک عظیم کارنامہ کو انجام دیا۔
( تاریخ وفات )
آپ رحمۃ اللہ علیہ گزشتہ کئی دنوں سے بیمار چل رہے تھے۔ علاج کے لئے چنڈی گڑھ بھی تشریف لے گئے۔ لیکن طبیعت میں بہتری نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ لکھنؤ کے ہی ایک ہاسپیٹل میں زیر علاج تھے۔ ادھر آپ کے متعلقین، اہل خانہ، آپ کے چاہنے والے، آپ کے اساتذہ اور آپ کے شاگرد برابر آپ کی صحت یابی کے لئے دعا کرتے رہے لیکن اللہ کے یہاں فیصلہ ہو چکا تھا اور قضا کے فیصلے پر رضا ہی ہمارا ایمان ہے اور آج بتاریخ ١٣ محرم الحرام ١٤٤٤ ھ بمطابق ١٢ اگست ٢٠٢٢ بروز جمعہ آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، درجات کو بلند فرمائے، آپ کی عظیم ترین خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے، اپنی رضا و خوشنودی نصیب فرمائے، آپ کے متعلقین و اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں، ان کی باتیں دلوں کو گرماتی رہتی ہیں، ان کے اقوال و افعال، اعمال و کردار، اخلاق و عادات، زندگی کے گراں قدر خدمات، تصانیف و تالیفات سے ایک زمانہ صدیوں تک اپنے علمی پیاس کو بجھاتا رہے گا ان شاءاللہ۔
Comments are closed.