تحریکِ آزادی اور علماءِ کرام 

 

 

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

چیف ایڈیٹر: ہفت روزہ ”آب حیات“ بھوپال (ایم پی)

 

ملت اسلامیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ملت اسلامیہ کو جب بھی مذہبی راہ سے یا سماجی یا سیاسی راہ سے چیلنج پیش آئے اور ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوئی تو اس میں علماء کا بنیادی بلکہ اصل حصہ رہا۔

ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جب انگریزوں نے اپنا ناپاک پنجہ گاڑا تو سب سے پہلے سامراجی ظلم کے خلاف علماء نے ہی علم بغاوت بلند کیا۔

آزادی کی تحریک میں یوں تو ہندو اور مسلمان سب ہی شریک رہے، لیکن مسلمانوں نے اپنے مخلص رہنماؤں اور علمائے دین کی قیادت میں جو نمایاں حصہ لیا اور زبردست قربانیاں پیش کیں وہ عام طور پر نظروں سے اوجھل ہوتی جارہی ہیں، اگر لاعلمی کا یہی حال رہا تو شاید آنے والی نسل کو یاد بھی نہ رہے گا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہمارا اور ہمارے اسلاف کا بھی نا قابل فراموش کردار تھا۔ ایسا کردار کہ جس کی بدولت انگریزوں کا اقتدار صرف ہندوستان ہی سے نہیں، بلکہ ایشیا وافریقہ کے ان مسلم ممالک سے بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا جہاں اس کا پنجہ مضبوط اور اس کا زوال موہوم تھا۔

ہماری نسل کو اپنے ان بزرگوں کی قربانیوں کی تاریخ کا علم نہیں، انہیں اپنے اکابر و اسلاف کی سنہری تاریخ سے واقفیت نہیں کہ ہمارے اکابرین نے ہی برطانوی سامراج کا مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھ کر سب سے پہلے جھنڈا بلند کیا، ہم نے برادران وطن کا انتظار نہیں کیا جنگ آزادی کے میدان میں ہماری جگہ ہمیشہ صف اول میں رہی اس سے کسی کو مجال انکار نہیں۔ہماری موجودہ مسلمان نسل اپنے ماضی اور اپنے اسلاف کے مجاہدانہ کارناموں سے واقف ہوکر ان کی طرح اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کا عزم کرتے ہوئے زندگی کے میدانوں میں میں رواں دواں رہے اور ان کی نگاہوں کے سامنے سے علمائے دیوبند کی جفاکشی اور علماء صادق پور کی سرفروشی کی داستان اوجھل نہ ہونے پائے۔ انہیں سراج الدولہ اور شیرمیسور ٹیپوسلطان کی وطن پرستی سے واقفیت حاصل ہو۔

آزادیِ وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح بالکل ختم ہو جائے گی۔

وطن کی آزادی میں ہمارے علماء کرام کا رول کیسا تھا اس سلسلے میں محمد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

” البتہ اس اغراض پرستی اور طوائف الملوکی کے دور میں تحقیق و تفتیش کی ندرت آفرینی اور تلاش جستجوکی عجائب نوازی، ہمیں ایک جماعت سے روشناس کراتی ہے، جس کے جزبات مقدس، مقاصد بلند اورجس کی جدوجہد ہر قسم کے شبہ سے پاک ہے۔ بادشاہوں، شہزادوں، نوابوں اور راجاؤں کے متعلق بجا طور پر جاگیر شاہی کی زریں تمناؤں کا شبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس جماعت کا دامن ایسے تمام داغوں سے پاک ہے یہ جماعت نہ اقتدار کی،نہ حکومت و سلطنت کی آرزو مند،نہ اعزاز واکرام اوراعلی خطابات کی ہوس اس کے دامنوں سے الجھی ہوئی، اس کے سامنے صرف وطن ہے، باشندگان وطن ہیں، وطن عزیز کی حفاظت، اہل وطن کی ہمدردی اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی ہے یہی ان کا نصب العین ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس دین و مذہب کی حفاظت بھی ضروری سمجھتے ہیں، جس سے ان کے پاک نفوس میں یہ پاکیزہ جذبات پیدا کیے۔ وہ یہ علماء ہند کی جماعت ہے، وہ جماعت کے اگر اس کے فکر سلیم اور جذبہ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے اور تاریخی واقعات کی ترتیب اور ان کے سلسلہ میں سے اس جماعت کی سنہری زنجیر کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ باخلاص ایثار شیوہ جماعت کے حق میں ناانصافی ہوگی،بلکہ حق یہ ہےکہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اور ایثار و قربانی کی پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اس جماعت نے اٹھارہویں صدی کے وسط سے رفتار زمانہ کو بھانپ کر جو نظریہ مرتب کیا وطن عزیز کی ترقی اور کامیابی کے لئے جو تدبیریں سوچیں اور جس طرح ان پر عمل کیا وہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔” (علمائے ہند کا شاندار ماضی57)

مدارس اسلامیہ کے پروردہ علمائے کرام و فضلاء عظام نے ہمیشہ ملکی مفادات کی پاسبانی اور اپنے خون پسینہ سے چمنستانِ ہند کی آبیاری کی ہے اور ملک کی آزادی کی تاریخ ان کی قربانیوں سے لالہ زارہے ۔برطانوی سامراج کے ظلم واستبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروس حریت سے ہمکنار کرانے میں مدارس اسلامیہ کے جیالوں کی قربانیاں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، وہ مدارس اسلامیہ کے جاں باز علمائے کرام ہی تو تھے جنہوں نے ملک میں آزادی کا صور اس وقت پھونکا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب غفلت میں مست، آزادی کی ضرورت و اہمیت سے نابلد اور احساس غلامی سے بھی عاری تھے۔ ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا اورجنھوں نے محکومی کی شب دیجور کو تار تار کیا اور ملک کے چپے چپے کو انوار حریت کے ضو فشانی سے معمور کیا۔

آخر وہ کونسی قربانی ہے جو ہمارے علمائے کرام نے نہیں دی، جب بھی مادر وطن کے لیے شھید ہونے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیں گے تو علمائے دین کو بڑی تعداد میں خون شہادت سے سرخرو پائیں گے۔

ہمارے علماء، شاملی کے میدان سے جزیرہ انڈمان میں نظر آئے، کبھی ریشمی رومال کی شکل میں نظر آئے، کبھی انہوں نے مادر وطن کی آزادی کے لیے لندن اور امریکہ کا سفر کیا، کبھی خون کا دریابہایا، کبھی مشرق و مغرب میں مادر وطن کی وکالت کی،کبھی بالا کوٹ کی پہاڑی پر چڑھ کر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔

آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری بہنوں و عورتوں کو بے حرمت کیا گیا، املاک پر ڈاکہ زنی کی گئی لاتعداد بچے یتیم ہوئے، بے شمار سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، بستیاں ویران اور گاؤں بے چراغ ہو گئے لاکھوں جانے تلف ہوئیں، کالے پانی میں بھی ہم نے ہی سزائے قید کاٹی، جیل خانوں کے مصائب جھیلے، جلیاں والا باغ کے خونی منظر سے بھی گزرے ہیں، ایک ایک دن میں اسی اسی علمائے کرام کوپھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا،دہلی کے چاندنی چوک سے لے کر لاہور تک کھڑا کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی نہ کسی عالم کی لاش لٹکی نہ ہو۔

ہوۓ شہید لہو کو لٹا دیا ہم نے

وطن کی خاک کو دلہن بنا دیا ہم نے

ہر ایک گل میں ہمارے لہو کی خوشبو ہے

ابھی بھی پوچھ رہے ہیں کیا دیاہم نے

حضرت مجدد الف ثانی سے لے کر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تک تمام ہی اکابرین نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی ایک ہندو مؤرخ رام گپت نے لکھا ہے کہ 1857ء میں 50ہزار علمائے کرام اور پانچ لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔

اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک

ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک

یہ علمائے کرام کی ہی مقدس جماعت تھی جنھوں نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔

اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ملک و قوم کے ہیرو، ان مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کریں اور ان کی تاریخ اور کارناموں سے واقفیت حاصل کریں اور ان کے نقوش زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور مدارس نے پیش کیا وہیں انگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علمائے کرام نےکی۔

فرقہ پرست طاقتوں اور احسان فراموش لوگوں نے آج تاریخ آزادی سے ہمارے ناموں کو حرف غلط کی طرح مٹا کر تاریخ کو مسخ کر دیا ہے پھر اسی غلط تاریخ سے ہماری نئی نسل کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور انہیں احساس کمتری کا شکار کر کے ان سے وفاداری کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔

یہ سب ہماری غفلت کا نتیجہ ہےکیونکہ ہم نے خود اپنے ماضی کو بھلا دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس قوم کو اپنے ماضی سے واقفیت نہ ہو تو وہ مستقبل کی روشن خواب کب دیکھ سکتی ہے؟ کیونکہ ماضی سے واقفیت ہی مستقبل کی سربلندی کامیابی کے لئے شاہ کلید ہے۔

یہ وقت سکون سے کام کرنے کا نہیں ہے بلکہ میدان عمل میں آجانےاور سربکف کام شروع کردینے کا ہے۔ کیوں کہ آج وہ چمن جن کی آبیاری ہمارے علمائے کرام اپنے خون اور پیسنے سے کیا تھا اس پر غداروں اور اس سے بےوفائ کرنے والوں کے سنتانوں کا قبضہ ہے۔ جن کا وجود ہی جنگ آزادی کے خلاف عمل میں آیا تھا۔

آج وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے انسانیت کے اصولوں کو بھی پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس ملک ایک ایسا خار دار درخت لگا دیا ہے جس کے پھل زہریلے ہیں اگر مسلمان اب بھی اپنی غفلت،سستی اور انحطاط سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اس درخت کے کانٹوں سے الجھ کر اپنا سکون وچین غارت کر بیٹھیں گے، اور اس کے کڑوے کسیلے پھل سے گھٹ گھٹ کر مرنے لگیں گے۔

چپہ چپہ بوٹابوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا

اغیار ہیں آمادہ شر جاگتے رہنا

 

موجودہ حالات میں ایک اہم کام آپسی اتحاد واتفاق کو فروغ دیناہے کیونکہ کسی بھی قوم کی کامیابی وکامرانی اور فتح و نصرت کی تاریخ رقم کرنے میں سب سے کلیدی رول اس قوم کے درمیان پایا جانے والے اتحاد کا ہوتا ہے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج وزوال،اقبال مندی و سربلندی،ترقی وارتقاء،خوش حالی وفارغ البالی میں اتحاد و اتفاق باہمی اخوت و ہمدردی اہم ترین ثابت ہوا ہے۔

اجتماعیت وقت کا تقاضا ہے،جن معاملات کا تعلق پوری ملت یا امت سے ہو،ان میں کسی بھی طرح متحدہ مؤقف اپنایا جائے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔

حق اور باطل کے دو ہی راستے ہیں حق کا ساتھ دینے والے شہید اور غازی اور باطل کا ساتھ دینے والے منافق اور غدار کہلاتے ہیں آج کا وقت کل کی تاریخ ہے۔

قوم کے لئے آج ایک کڑا امتحان ہے لیکن اسی امتحان سے آگے آزادی کی بے پناہ کھلی راہ موجود ہےجو ترقی،امنگ اور راحت سے بھری پڑی ہے۔اب‌ یا کبھی نہیں۔

جب گلستان کو خون کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی

اب کہتے ہیں اہل چمن یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں

 

9826268925

Comments are closed.