جنگ أزادی میں علما ٕ کی قربانیاں اور مسلمانوں کا کردار !

مفتی فہیم الدین رحمانی ; چیرمین : شیخ الھند ٹرسٹ دہلی
قلم اور زبان سے نکلے ہوئے ” الفاظ ” ہی تاریخ کو جنم دیتے ہیں، قومیں جب حقوق کی میز پر أمنے سامنے بیٹھتیں ہیں تو وہاں ووٹ نہیں، بلکہ لاشیں شمار کی جاتی ہیں۔ جس قوم کی لاشيں اپنے حقوق کے حصول میں زیادہ ہوں گی وہی ہر اول دستہ کہلاٸے گی ۔کیوں کہ ہندوستان میں فرنگی سامراج کے خلاف أزادی کی جدوجہد میں پہل مسلمانوں نے کی ہے۔ اسی لٸے 15/ اگست 1947 ٕ کی تاریخ ہندوستان کی ایک یارگار اور اہم ترین تاریخ ہے
اسی تاریخ میں ہمارا یہ محبوب اور پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، اس لٸے کہ دوسوسال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹا دینے کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا۔ کیوں کہ آزادی اللہ سبحانہ وتعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جبکہ غلامی رب ذوالجلال کی طرف سے ایک عذاب ہے، اس آزادی کی خاطر ہمارے اسلاف و علماٸے اکابرین،اور رہنما ٸے قائدین اور مسلم عوام نے جانی ومالی قربانیاں پیش کیں، تحریکیں چلائیں، پھانسی کے پھندے پر چڑھے، تب کہیں جاکر انگریزوں کے ناپاک قدم سے ہمارا ملک پاک ہوا، انگریزوں نے ہند پر حکومت کرنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں اختیار کیں، پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے پروپیگنڈہ کو اختیار کیا، ہندوستان کی عوام کو ہندو مسلم کے نام پر آپس میں لڑانے کی کوششیں کیں، ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو مسمار کرنے کی تدبیریں اختیار کیں، لیکن ان کی کوششیں رائیگاں ہوگئیں، الغرض ایک دن وہ آیا کہ ان لوگوں کو ہمارا ملک چھوڑ کر جانا پڑا، اور ہمارا ملک انکی غلامی سے آزاد ہوا۔
انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا تھا لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی،
انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھا کر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں
کے ذریعہ ہندوستانی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کو لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کے تہذیب وتمدن سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج
الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور ادھر علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکارنے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم، صبر آزمائی، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا۔
چنانچہ ان ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے آزادی کی
خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا، خصوصاً شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسحاق محدث دہلوی، مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی، مولانا قاسم نانوتوی، شیخ الہند، مولانا رشید احمد گنگوہی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا فضل حق خیرآبادی، حافظ ضامن شہید، مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور مولانا ابو الکلام آزاد وغیرہ جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں، بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیٴ وطن کی بنیاد رکھی۔
انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں 1857ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے، لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دو لاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے، ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں، اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں، بالخصوص مسلمانوں اورخاص طور سے علماءکرام کی جہد مسلسل اور جانی ومالی قربانی کےبعدآزاد ہوا۔
ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار تاریخ میں ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتا ہے، یہ مسلمانوں کی حب الوطنی، جوش ولولہ اور ایثارو قربانی کی لافانی داستان ہے، تحریک آزادی میں مسلمانوں نے ایک بے مثال کردار ادا کیا اور ہمارے ملک کے ہندو، سکھ اور عیسائی بھائیوں کا بھی اس ملک کی آزادی میں اہم رول رہا ہے، مہاتما گاندھی جی، پنڈٹ جواہر لال نہرو، رابندر ناتھ ٹیگور، اور شہید بھگت سنگھ کی قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ
اس ملک میں بسنے والی ہندوستانی قوم جو کہ مختلف مذاہب، ذات اور ثقافتوں پر قائم ہوئی تھی آج ہمارا یہ ملک اس منہج سے ہٹتا جارہا ہے، اس وقت ملک جس بحرانی دور سے گزر رہا ہے وہ ہم سب پر ظاہر وعیاں ہے فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے قانون کا خیال کر رہے ہیں اور نہ ہی انسانیت کے اصولوں کو مان رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو
نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ فرقہ پرست اور تعصب زدہ لوگ مساجد و مدارس اور مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک چلائے ہوئے ہیں، مدارس، مساجد اور مسلمانوں کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم میں زبردست شدت لاٸی جا رہی ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی جنگ آزادی کے مجاہدین اور شہیدو ں کی بات ہوتی ہے تو مسلمانوں میں بس مولانا ابوالکلام آزاد اور شہید ٹیپو سلطان کا سرسری تذکرہ کرکے بات ختم کردی جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ آزادی کی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والوں نے مسلم انقلابیوں، شاعروں اور مصنفین کی جنگ آزادی میں حصہ داری کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نسل اس پہلو سے با لکل لا علم ہے۔ اور منفی پروپگنڈہ کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج آئے دن وسیع ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو اسکول وکالج کے نصاب کی کتابوں سے نکالا جارہا ہے صرف ٹیپو سلطان اور مولانا ابوالکلام آزاد کی قربانی کے دو چند واقعات کے علاوہ دوسرے علماء کی قربانیوں کو نصاب میں جگہ نہیں دی جارہی ہے، تاریخ سے ہمارے نام ونشان کو مٹانے کی انتھک کوششیں کی جارہی ہیں، عصبیت کا تو یہ عالم ہے کہ دوسری قوموں کے مجاہدینِ آزادی وطن کے نام کی سڑکیں، پارک، ہاسپیٹل اور اسکول تو تیزی سے بن رہے ہیں لیکن ہمارے بزرگوں کے نام سے موسوم کچھ بھی بنانا گوارہ نہیں کیا جاتاہے، افسوس! حد تو یہ ہوگئی کہ ہماری تاریخی مقامات کے نام کو بدلا جارہا ہے، ہمارے بزرگان دین کے نام سے موسوم تمام تر جگہوں اور چیزوں کے نام کو غیروں کا نام دیا جارہا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک اور قوم کے ہیرو، اور ان مجاہدینِ أزادی کو خراج عقیدت پیش کریں اور ان کی تاریخ اور کارناموں سے واقفیت حاصل کریں اور ان کے نقوشِ زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔

شعبہ نشر و اشاعت، شیخ الھند ایجوکیشنل اینڈ ویلفيئر ٹرسٹ دہلی55

Comments are closed.