آزادی ہند :موجودہ حالات ، اسباب اور لائحہ عمل

از :خالد سیف اللہ موتیہاری

15 اگست 1947ء کو ہمارا وطن عزیز ہندوستان ، مجاہدینِ آزادی کی طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد، انگریزوں کے ظلم وستم اور غلامی کی زنجیروں سے آزاد توہوا ـ
مگرکئی اعتبار سے ہم آزاد ہو کر بھی اصل آزاد نہیں ہوئے ، حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی وطن عزیز مکمل آزادی کا منتظر ہے ، چونکہ اس وقت ہمارا وطن تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، دن بدن حالات خراب ہو تے جارہے ہیں ،
صرف ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر ان پر وہ ظلم وستم ڈھایا جارہاہے جس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ـ
ایک طرف تو حکومت اقلیتوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف ، اتر پردیش میں بابا کا بلڈوزر یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے ، کبھی مذہبی مقامات کو شہید کر رہی ہے تو کبھی مسلمانوں کے گھروں کو غیر قانونی طریقے سے مسمار کر رہی ہے ، جو قابلِ مذمت ہے ، بابا کے اس عمل سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں پر نہیں بلکہ آئین ہند پر بلڈوزر چلا رہے ہیں ـ
جب سے بی جے پی کی حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے ملک میں نفرت کا طوفان آگیا ہے ۔
ہمارے گنگا جمنا تہذیب والے بھارت میں ایک انسانیت سوز حرکت یعنی "ماب لنچنگ” کی خبریں امن پسند شہریوں کے دل دہلا رہی ہیں۔ سنا جارہا ہے کہ کچھ شر پسند عناصر کچھ افواہیں پھیلاکر ہمارے معاشرے کی فضا پراگندہ کرنے لگے ہیں نتیجتاً عام شہریوں میں کسی خاص فرقے یا خاص شخصیات کے خلاف غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ جس کے سبب کہیں ایک بھیڑ جذبات میں بھر کر اس پر ہلا بول دیتی ہے اور اس کا ناحق قتل کردیتی ہے۔ دراصل یہ شرپسند عناصر کے کچھ سیاسی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ جو کہ نفرت کی سیاست سے ہمارے ملک کو منتشر کرنے کے در پر ہیں۔
فیکٹ انڈیا کی سروے رپورٹ کے مطابق 2014 تا 2019 تک ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے 291 واقعات رونماہوئے ہیں۔جس میں 98 معصوموں کی جانیں تلف ہوئی اور 722 بے قصورزخمی ہوئے ہیں۔ جن میں 59 فی صد مسلمان رہے ہیں بقیہ دلت اور دیگر پچھڑے طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ دیگر ذرائع کے سروے رپورٹس میں یہ تعداد اور زیادہ بتائی گئی ہے۔ ملت ٹائمز کے مطابق مئی 2019 میں بی جے پی دوسری مرتبہ حکومت سنبھالنے کے بعد پتہ نہیں کیوں ماب لنچنگ کے مزید 55 واقعات روشنی میں آئے ہیں۔ ملت ٹائمز کی خصوصی ٹیم کی سروے رپورٹ کے تحت جس دن اس حکومت کے 44 دن مکمل ہوئے اس دن تک پورے ملک میں ماب لنچنگ اور ہجوم تشدد کے کل 55 واقعات رونما ہوچکے تھے۔ اس رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ اس پارٹی کی سرکار کی پہلی مدت کے مقابلے اس مرتبہ ایسے انسانیت سوز حرکات کی شرح میں کئی گنااضافہ ہواہے۔ ماہرین ریاضی کے اندازے کے مطابق اس سرکار کے پانچ سال کی میاد یعنی کہ 1780 دنوں میں ماب لنچنگ کے 2225 واقعات پیش آئیں گے۔ ظاہر ہے بلاناغہ یومیہ ایک سے زائد ماب لنچنگ کے واقعات کی خبریں سننے کو ملیں گیں۔
اس ماب لنچنگ کی زد میں آنے والوں میں چند بدنصیب معصوم مندرجہ ذیل ہیں۔
حافظ قرآن ’’جنید خان ‘‘دہلی سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے، ان کی ٹوپی اور لباس کا مذاق اڑایا گیا، بات بڑھتے بڑھتے چاقو سے حملے تک پہنچ گئی اور وہ معصوم اپنے دو بھائیوں کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔
سید پور کی ’’گل بہار‘‘کے شوہر ’’افروز ‘‘ کو شمبھوناتھ نے قتل کیا اور اسے آگ لگا کر جلا دیا،

10ستمبر کو جھارکھنڈ کے ’’تبریز عالم انصاری ‘‘جو کہ یتیم تھااور اس کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے، اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا، تبریز کی کہانی میں’’جئے شری رام ‘‘ بلوانے کا عنصر غالب ہے۔ جئے شری رام، جئے ہنومان کہنے کے باوجود اسے اتنا پیٹا گیا کہ وہ جان کی بازی ہی ہار گیا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اب تک مجرموں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے ۔

اور اس سے بڑھ کر ظلم تو یہ ہے کہ مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والے انصاف پسند لوگوں کو مرکزی حکومت پولیس کو ہتھیار بناکر ان کی جمہوری آواز کو دبانا چاہ رہی ہے ـ

ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے

1947 سےلےکر اب تک تاریخ پر جب نگاہ دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بی ۔ جے ۔ پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے عوام جس نازک دور سے گزر رہی ہے اور جس مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہے وہ ہندوستانی عوام کی تاریخ کے سب سے دشوار اور کرب ناک لمحات ہیں ۔
اور یہ ظلم صرف اس وجہ سے کیا جارہاہے کہ سنگھ پریوار کا ماننا ہے کہ مسلمان بھارت کا وفادار نہیں ہے ، ان کا دعویٰ ہے کہ اس دیش کا وفادار صرف آر ایس ایس ہے ان سے زیادہ کوئی نہیں ہے ، جبکہ پورا ملک یہ جانتا ہے کہ آر ایس ایس ایک ایسا سنگھٹن ہے جو نہ تو آزاد ہندوستان کے آئین ، اور قومی پرچم پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا بھارت کی جنگ آزادی سے کوئی لینا دینا رہا ہے ۔
آر ایس ایس جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف برپا جد وجہد نیز مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کو کس کمتر نگاہ سے دیکھتا تھا یہ جان کر کسی بھی ہم وطن کو غصہ آنا لازمی ہے ـ
آر ایس ایس دلتوں اور خواتین کے بارے میں جو شرمناک نظریہ رکھتا ہے وہ بھی ظاہر ہے ۔
آر ایس ایس کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ بھارت کو مکمل طور پر ہندو راشٹ بنادیا جائے ، لیکن ان کی یہ ناکام خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہو گی ۔
آج سے 75 سال قبل گاندھی نے ان کی ذہنیت کو بھانپتے ہوئےاپنی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ "اگر ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہیں، تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ تمام ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جنہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا ہے آپس میں ہم وطن ہیں انہیں متحد ہو کر رہنا پڑے گا۔ خواہ اپنے مفادات ہی کے لئے ایسا کرنا پڑے۔ دنیا کے کسی حصے میں ایک قومیت اور مذہب کی یکسانیت لازم
و ملزوم چیز نہیں ہے اور نا ہی ہندوستان میں کبھی ایسا ہو گا۔” (ہند سواراج)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں کیوں پسا جارہا ہے ؟
جبکہ ہم ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمارا ماضی روشن اور تابناک دیکھائی دیتا ہے، ہر طرف اپنا رعب و دبدبہ، اپنی شان وشوکت، اپنی ایک الگ پہچان دیکھائی دیتا ہے ، کس قدر عروج پر ہم تھے؟ کیا ہی شان وشوکت تھی ہماری ؟ لیکن اب سب چلی گئی، چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آج ذلت وپستی کے غار میں گرپڑے ہیں؟ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہماری یہ گت بنی ہوئی ہے ؟ گہرائی سے جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اپنے کئے کرائے کا نتیجہ ہے۔

اس کے چند اسباب نیچے بیان کیا جاتا ہے۔

(1) ترک قرآن ، قرآن کریم کو جب تک مسلمانوں نے سینے سے لگائے رکھا،
اور اس کے احکامات پر عمل کرتے رہے ،
تو اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کام یابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی، لیکن جب اس کا رشتہ کتاب اللہ سے کم زور ہوا، اس نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوا اکھڑ گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، اس کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا ، دوسری قومیں اس پر شیر ہوگئیں اور اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی۔
(2) ایمان کی کمزوری
ہمارے ایمان کی کمزوری کا بڑا سبب منافقت، حسد اور اعتقادی اختلافات ہیں جس کی وجہ سے عمل کے ہر میدان میں مسلسل بگاڑ واقع ہو رہا ہے اور ہماری اعلیٰ اخلاقی قدریں کمزور پڑ رہی ہیں اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم مصلحت، ذاتی منفعت اور دنیاوی فائدے کی خاطر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
مثلا مشہور ہےکہ ، ایک دیہاتی نے کسی شہر میں فٹ بال کھیلتے ہوۓ لوگوں کو دیکھا ، تو اس نے قریب میں کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا : ” چاچا ! اس گیند کی کیا غلطی ہے ؟ جو سارے مل کر اسے لاتوں سے مار رہے ہیں ” ۔ ان بزرگ نے جواب دیا : ” اس گیند کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اندر سے خالی ہے ، ورنہ کسی کی کیا مجال کہ اسے لاتوں سے مارے ” ۔ موجودہ دور میں ہم مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کہ ہم مسلمان ہو کر بھی اندر سے ایمانی طاقت سے خالی ہیں ،

(3) اللہ کےا حکام اور سنت رسول کی نافرمانی۔
جب انسان اللہ اور رسول کی نافرمانیوں میں زندگی گزار تاہے تو اللہ تعالیٰ ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتے ہیں ،
چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اَعٗمَالُکُمٗ وَعُمَّالُکُمٗ)
ترجمہ ، تمہارے اعمال ہی تمہارے سربراں اور حکمراں ہونگے یعنی جیساعمل کروگے ویسے ہی تمہارے حاکم اور تمہارےپردھان منتری ہوں گے۔

(4) مسلک پرستی : مسلکی اختلاف نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا بلکہ یہ کہیں جسم مسلم کو کاٹ کاٹ کر الگ کردیا۔ ہمارا سر الگ اور دھڑ الگ ہے ۔دشمنوں کے ہتھکنڈوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جس قدر مسلک پرستی نے دین اسلام اور قوت مسلم کوپہنچا۔ ایک دوسرے کو کافر قراردینا، ایک دوسرے مسلمان سے شادی بیاہ ، لین دین اور قطع تعلق کرنا، ایک دوسرے کو نیچااور غلط ثابت کرنے کے لیے تلوارونیزے اٹھانا بلکہ کافروں سے بدترسلوک کرناآپس میں اس قدر شدید ہے کہ یہودیت ونصرانیت کی دشمنی ماندپڑگئی ہے ۔

(5) دنیا سے محبت : دنیا کی محبت نے ہمیں دین سے غافل کردیا، مقصد حیات بھلادیااورموت کا ڈر دل میں پیدا کردیاہے ایمانی، رشوت خوری، حرام کاری، قماربازی، شہوت رانی، کالابازاری ، جہل ونادانی ، کفروعصیاں اور دولت کی کثرت سے عیش وشہوت کی زندگی ہمارا مشغلہ بن گیا۔ یاد رکھیں جب تک دل سے دنیا کی محبت دور نہ ہوگی ہمارے اندر سے مذموم صفات کا خاتمہ ناممکن ہے ۔

ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟

1 سب سے پہلا کام اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اس کے سامنے گڑ گڑا کر حالات بدلنے کے لیے دعا کرنا ، اس لیے کہ اصل قوت وطاقت کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔

2 دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛

3 تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ غیر ضروری جوش سے گریز کیا جاۓ ، فیصلے جوش کے بجاۓ ہوش اور اقدام جذباتیت کے بجاۓ عقلیت سے کیا جاۓ ، غیر ضروری جوش سے ملت کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے ، اس لیے ہر حال میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ نا گوار واقعات سامنے نہ آئیں ،

4 چوتھی بات یہ ہے کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا ، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین

Comments are closed.