اِس پر بھی ہم نے جشن منایا ہے دوستو

اِس پر بھی ہم نے جشن منایا ہے دوستو
ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ ــــ
از: محمد عظیم فیض آبادی
دارالعلوم النصرہ دیوبند
ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی ایک بڑی نعمت سے اور غلامی وبے بسی ایک لعنت ہے اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک کے لئے اس کی آزادی کے دن سے زیادہ کوئی اور دن خوشی کا نہیں کیونکہ یہی ایک ایسا دن ہے جس میں ہر فرد وجماعت ، ہر دھرم ومذہب کا پیروکار ، ہر شہری ودیہاتی حتی کہ ہر امیر وغریب اپنی خوشی ومسرت کا اظہار اس دن کرتا ہے ترنگے کے ساتھ کرتاہے
15/ اگست ہمارے پیارے ملک ہندستان کا وہ قومی دن ہے جس میں انگریزوں کی غلامی ، اسکے ظلم استبداد اور ظالمانہ حکمرانی سے بڑی قربانیوں کے بعد نجات ملی
نواب سراج الدولہ سے اس کا باضابطہ ہو کر 1857 کے دلدوز واقعہ اور جلیانوالہ باغ کے خونی حادثہ سے گذر کر بہادر شاہ ظفر کی بے بسے وکسمپرسی اور لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے بعد یہ نعمت ملی ہے
ظاہر ہے کہ یہ دن اس ملک کا سب سے یادگار اور سب سے زیادہ خوشی ومسرت کے اظہار کا دن ہے اور ہونا بھی چاہئے اگر کوئی شخص اس خوشی ومسرت کے اظہار میں شرکت نہ کرے تو محرومی کے سوا اسے کیا کہہ سکتے ہیں
لیکن ظاہر ہے کہ صرف خوشی کا اظہار ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ دن ہمیں اس بات کے غور وفکر کی دعوت بھی دیتاہے کہ ہمارے اکابر اسلاف اور اس ملک کی آزادی میں اہہم کردار ادا کرنے والے اور ملک کی آزادی وملک کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والوں نے جو خواب سجایا تھا ہم اس کے حاصل میں کتنا کامیاب ہوئے
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا کسان اپنی کھیتی کسانی سے خوش ہے کہ نہیں، ہمارا مزدور طبقہ کس حال میں جی رہا ہے ، ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ہمارا پیشہ ورطبقہ کس حال میں ہے ہماری تعلیم وصحت کا معیار کیا ہے اورکیا ہونا چاہئے ہماری ماؤں بہنوں کی عزت وحرمت ، ہر شہری کے جان مال عزت آبرؤ، محفوط ہے کہ نہیں ،
یقین مانئے کہ اسکے بغیر نہ ہماری آزادی ادھوری ہےاور خوشی ومسرت نامکمل ہے
جب تک ملک کو غریبی بھکمری اور بے روزگرری سے آزادی نہ مل جائے ، جب تک بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں سے آزادی نہ مل جائے،جب تک اس ملک کو کو نفرت اور دنگوں کی بھٹھیوں میں جلنے سے چھٹکارا نہ مل جائے، اس دیش کا کسان خوشحال نہ ہو جائے، جب تک قانون کو اپنے مفاد کےبجائے ملک وملت کے مفاد کےلئے استعمال کرنے کی فکر دامن گیر نہ ہوجائے ، جب تک قانون کے مطابق اظہار خیال کی آزادی نہ مل جائے، جب تک تعلیم کا حق ہر ایک کویکساں طور پر نہ مل جائے ، وصحت سائنس کے حوالے سے ملک ترقی تمام تر بلندیوں کو حاصل نہ کرلے، بدعنوانی اور ملک کوکھوکھلا کردینے والی رشوت کی گرم بازاری سے ملک کے ہر شہری کو نجات نہ مل جائے اس وقت تک حقیقی آزادی کا خواب ادھورا ہے،
اس کے علاوہ ملک کے بنیادی مسائل سے منہ پھیر کر اس طرح صرف جشن منانے اور جشن وجلوس پر لاکھوں روپئے خرچ کرنا نہ ملک سے سچی محبت کی علامت ہے اور نہ ہی ملک کی عوام کے ساتھ انصاف ، ایک اندازے کے مطابق
” ہر گھر ترنگا مہم میں لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ ہو رہے ہیں صرف اترپردیش سرکار پر ترنگا خریدنے کے لئے چالیس کروڑ روپئے کا بوجھ آئے گا اور اسے پہرانے میں 200 کروڑ روپئے خرچ ہونگے جبکہ اترپردیش سرکاری اسکولوں میں کھانا اور بچوں کو ڈریس کے پیسے نہیں دے پا رہی ہے ” ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے کتابیں سستی ہوتیں
خود "بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ورن گاندھی نے ٹیوٹر پر لکھا ہے کہ ” آزادی کے 75 ویں سال کا جشن اگر غریبوں پر بوجھ بن جائے تو یہ افسوسناک ہوگا ” غور کیجئے کہ
70 سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس ملک میں مرکزی حکومت نے کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا دیا ، دال چاول ،گیہوں آٹا،دودھ، دہی ، گڑ چینی اور پہلی بار ایسا ہوا کہ سرکار ڈیزل پٹرول پر 60 روپئے کے قریب ٹیکس وصل کر رہی ہے اور اسطرح ایک سال میں تقریبا 3.5 لاکھ کروڑ روپئے کے قریب لیکن افسوس ہے کہ یہ پیسہ عوامی فلاح وبہبود کے بجائے مالداروں کی خوشنودی کے حصول پر خرچ ہوتے ہیں ، ٹیکس کے پیسوں سے مالداروں کے کروڑوں کے قرض معاف کرکے اپنے یارانے کو تق مضبوط کی گیا مگر غیرب ک چھولھا بجھتارہا ، غریب غربت وافلاس سےجوجھ رہاہے مگر ہر گھر ترنگا مہم کو فروغ دینی والی سرکار کوکوئی فرق نہیں، غریبوں کے پاس جھنڈا خریدنے کے پیسے نہیں اور لاکھوں لوگوں کے پاس اگر ترنگا ہے تو اس پھرانے کے لئے مکان نہیں ،
کیا ایسے میں ازادی کا جشن پھیکا نہیں رہے گا ،
جو بے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ، جن لوگوں کے گھروں کو زمین دوزکرکے بے گھر کردیا گیا، ماب لنچنگ میں جن لوگوں نے اپنی جان گنوادی ، فسادات میں جن کا سب کچھ برباد ہوگیا، جو لوگ سماج میں پھیل رہے نفرت کی بھینٹ چھڑ کر ویران ہوگئے وہ کس طرح سے آزادی کا جشن منائیں ، مذہبی ازادی خطرات سے دوچارہے ، مذہب کے نام پر بچیوں کو بے حجاب کیا جارہاہے ، مذہبی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ، نفرت اس حد تک کہ تین منٹ کی آذان تک برداشت نہیں، قومی یکجہتی فنا کے گھاٹ اتر رہی ہے ، نفرت کا زہر سماج میں گھول کر گنگا جمنی تہذیب ختم کی جا رہاہے ، مذہب کے نام پر سماج کو ہندو مسلم کے دوخانوں میں بانٹ دیا گیا ہے ، ایسے میں آزادی کا جشن کامل نہیں ہوسکتا
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے اس لئے کامل آزادی تو یہ ہے ہم سوچیں کہ ہمارا پیارا ملک امن وآمان کا گہوارہ کیسے ہو اور جمہوری استحکام اور عدل وانصاف کی مضبوطی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ میں ترقی کی منزلوں کو کس طرح تیز رفتاری کے ساتھ طے کرے اور اس بناوٹی جشن حقیقی جشن کا حقدار کیسے بنیں ملک کے مجاہدین ازادی کو یہی سچی خراج عقیدت بھی ہوگی اور یہ ذمہ داری صرف سرکار کی نہیں یا کسی ایک فرد یا جماعت کی نہیں بلکہ سماج کے ہر فرد بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں اور سماجی اداروں کی ہے
خدا کرے یہ امن وآمان کا گہوارہ ، گنگا جمنی تہذیب کا مرکز اور ملک آزادی کی حقیقی نعمت سے سرفراز ہو
آزاد ہوکے ہم نے جو پایا ہے دوستو
اس سےکہیں زیادہ گنوایا ہے دوستو
عـزت گئی وقـار گیـا کاروبـار بھی
اِس پربھی ہم نےجشن منایاہےدوستو
Comments are closed.