دھرم سنسد کی جانب سے ہندو راشٹر کا قیام ایک شگوفہ
( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے ،جس میں مختلف مذاہبِ کے ماننے والے رہتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے مذہبی اصول الگ الگ ہیں ، ہر ایک کے رسم و رواج الگ الگ ہیں ، جیسے ہندو اور عیسائی کو لے لیجئے ، ہندو دھرم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ عیسائی بھی ہندو ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ھے ، ہندو دھرم والے رام کو مانتے ہیں ،جبکہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو مانتے ہیں ،دونوں کے مذہبی اصول الگ الگ ہیں ، دونوں کے دیگر رسوم الگ الگ ہیں ، خود ہندو دھرم کے ماننے والے سب ایک نہیں ہیں ، کسی علاقہ میں رام کے ماننے والے ہیں تو کسی علاقہ میں راون کو مانتے ہیں ، ان میں بھی آپس میں بہت سے اصول اور رسم و رواج میں فرق ھے ، اس طرح کسی بھی مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے مذہبی اصول و روایت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے
دوسری بات یہ کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ھے ، اس میں آئین کو بالا دستی حاصل ھے ، ملک کا قانون مذہبی آزادی کا حق دیتا ھے ، اپنے مذہب پر عمل کرنے ، مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور مذہب کے مطابق اپنی شادی بیاہ و دیگر رسوم کو ادا کرنے کی آزادی دیتا ھے ، اس طرح ہندو راشٹریہ کا شگوفہ کسی طرح بھی ملک کے آئین کے مطابق نہیں ھے
موجودہ وقت میں ایک ویڈیو کلپ گشت کر رہا ھے کہ دھرم سنسد میں ہندو راشٹریہ کی تجویز منظور کی گئی ، اس کی بنیاد پر اخبار میں بھی اس طرح کی خبریں شائع ہو رہی ہیں ، یہی نہیں ، بلکہ یہ بھی خبر ھے کہ اس کا دستور بھی مرتب کرلیا گیا ، حالات کی روشنی میں ضروری ھے کہ ہم اس خبر کا جائزہ لیں ، جائزہ کے مطابق ملک میں دھرم سنسد کچھ بھی نہیں ھے ، یہ سنسد چند سادھو سنتوں کا ایک گروہ ھے ، ایسا لگتا ھے کہ یہ ملک کے آئین و ضابطہ سے واقف نہیں ہیں ، کیونکہ اگر وہ لوگ اس سے واقف ہوتے تو ایسی بات نہیں کرتے ، کیونکہ ملک اپنے آئین اور دستور سے چلتا ھے ، کسی خود ساختہ سنسد سے نہیں چلتا ھے ، اس طرح دھرم سنسد میں ہندو راشٹریہ کی تجویز منظور کر لینے سے ہندوستان ہندو راشٹریہ نہیں بنے گا ، اس لئے تجویز ہی بے بنیاد ہے اور ہندو راشٹریہ کا نظریہ بھی بے بنیاد ھے ،
جہاں تک حکومت کی بات ھے تو حکومت کو بھی ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک کو ہندو راشٹریہ بنانے کا اختیار نہیں ھے ، اس لئے کہ ہندوستان جمہوری ملک ھے ، اس میں آئین کی حکومت قائم ھے ، اگر خدا نخواستہ حکومت ایسا سوچے گی ، تو اس کو ملک کے آئین میں تبدیلی کرنی پڑے گی ، اور آئین میں تبدیلی کے مراحل سخت ہیں ، آئین میں تبدیلی کے لئے دونوں پارلیامنٹ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ترمیم پیش کرکے ترمیم کو منظور کرانا پڑے گا ، پھر صدر جمہوریہ کی منظوری ہوگی ، تب ملک کے آئین میں تبدیلی ہوسکے گی ، موجودہ وقت میں پارلیامنٹ میں موجودہ حکومت کی اکثریت نہیں ھے ، آئندہ اکثریت کے لئے حکومت کوشش کر رہی ھے ، مگر ایسی کوئی امید نظر نہیں آرہی ھے ،
موجودہ حالات کے تناظر میں ملک میں ہندو راشٹریہ کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ھے ، اس لئے ہندو راشٹریہ کے قیام کو ایک شگوفہ قرار دیا جائے، اور بس ، یہ شگوفہ چھوڑ کر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی سازش کی جاتی ھے ، ایسا تو کئی برسوں سے سن رہے ہیں ، اس لئے اس سے نہ خوف زدہ اور نہ ہی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، یہ سلسلہ خود ہی بند ہو جائے گا
البتہ موجودہ وقت میں اس کی سخت ضرورت ھے کہ ہم کسی دھوکہ میں نہ آئیں ، اور آئندہ کی حکمت عملی طے کریں ، بی جے پی اور اس جیسی پارٹیوں کا یہ نظریہ ہمیشہ سے رہا کہ پارلیامنٹ میں اس کی اکثریت ہو جائے ، مرکزی حکومت نے اس کے لئے توڑ جوڑ کی سیاست بھی شروع کی ، مگر اس میں اس کو کامیابی نہیں ملی ، اس کا پلان فیل ہو گیا ،مگر کوشش جاری ھے ، اس کا منصوبہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں اکثریت حاصل کرنا ھے ، تاکہ اکثریت کی بنیاد پر آئین میں ترمیم کا حق حاصل ہو جائے ، اور اپنے من چاہے منصوبہ کو ملک میں نافذ کردے ، اس کے لئے مرکزی حکومت نے ایک شوشہ اور چھوڑا ھے ، اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں میں کام کو آگے بڑھایا جائے ، اس لئے اس سے پسماندہ برادری کے لوگوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ھے ، اللہ تعالی حفاظت کرے اور سازشوں کو ناکام کرے
( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
Comments are closed.